ایبولا وائرس؛ انسانوں سے زیادہ جانوروں کے لیے تباہ کُن

Advertisement
ایک برس گزرجانے کے باوجود ایبولا وائرس مغربی افریقا میں دہشت کی علامت بنا ہوا ہے۔ اس وائرس سے پھیلنے والی وبا لائبیریا، سیرالیون اور گنی میں اب تک ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد انسانی جانیں لے چکی ہے۔
اکیس ہزار سے زائد انسان اب بھی اس وائرس کا شکار ہیں، چناں چہ قوی امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں ہلاکتیں بڑھ جائیں گی۔ مغربی افریقا میں ایبولا کی وبا دسمبر 2013ء میں سب سے پہلے گنی میں پھوٹی تھی جس نے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس وائرس سے لائبیریا اور سیرالیون سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
بڑی تعداد میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں نے ایبولا وائرس کو دورحاضر کا سب سے ہلاکت خیز وائرس بنادیا ہے۔ اقوام عالم کی توجہ ایبولا کے ہاتھوں انسانوں کی ہلاکت پر مرکوز ہے، لیکن یہ وائرس انسانوں کے ساتھ ساتھ گوریلوں اور چمپانزیوں کے لیے بھی انتہائی مہلک ثابت ہوا ہے۔ ان جانوروں کی ایک تہائی تعداد ایبولا وائرس کا شکار بن چکی ہے۔ بوزنوں ( بے دُم کے بندر ) کی یہ دونوں اقسام معدومیت کے خطرے سے دوچار حیوانی انواع کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ ان کی اس فہرست میں شمولیت میں ایبولا کی ہلاکت خیزی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
درحقیقت ایبولا وائرس انسانوں سے زیادہ ان بوزنوں کے لیے مہلک ہے۔ گوریلوں میں ایبولا وائرس کی وجہ سے ہلاکتوں کی شرح 95 فی صد جب کہ چمپانزیوں میں 77 فی صد ہے۔ ماہرین حیوانیات کے مطابق گوریلوں اور چمپانزیوں کی گھٹتی ہوئی تعداد کا سب سے بڑا سبب ایبولا وائرس ہی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ایبولا وائرس چمگادڑوں سے پھیلتا ہے مگر اس کا نشانہ دوسرے ممالیہ بنتے ہیں۔
ایبولا کی وبا طویل وقفوں کے بعد پُھوٹتی ہے مگر جب بھی پُھوٹتی ہے تو ان ممالیہ کی بڑی تعداد کا صفایا کردیتی ہے۔ مثلاً 1995ء میں ایبولا وائرس کی وجہ سے وسطی افریقی ملک گیبون کے نیشنل پارک میں موجود 90 فی صد گوریلا ہلاک ہوگئے تھے۔ 2002ء اور 2003ء کے دوران ایبولا وائرس جمہوریہ کانگو میں 5000 گوریلوں کو کھاگیا۔ دنیا میں ایک لاکھ گوریلے باقی بچے ہیں۔ اس کے پیش نظر پانچ ہزار گوریلوں کی ہلاکت اس جانور کی بقا کے لیے بڑا دھچکا تھی۔ براعظم افریقا کے ان منفرد جانوروں کو شکاریوں، قدرتی مسکن کی تباہی اور دیگر متعدی امراض کے خطروں کا بھی سامنا ہے۔