Showing posts with label Health. Show all posts

چہرے کی خوبصورتی کیسے بڑھائی جائے؟


اکثر خواتین کے چہرے پر پانی کی کمی کے باعث داغ دھبے پڑ جاتے ہیں جو کہ بسا اوقات نہایت بھدے اور بدنما معلوم ہوتے ہیں.
اس کے لئے بہتر تجویز یہی ہے کہ پانی زیادہ سے زیادہ پیا جائے،
گاجریں اور اُبلے ہوئے چقندر کھائیں.

چہرے کو خوشنما بنانے کے لیے پپیتا پیسٹ بنانے کا طریقہ:
ایک عدد پکا ہوا پپیتا لیں، روزانہ تھوڑا سا اس کو پیس کر اس میں عرق گلاب ملا کر پیسٹ بنائیں اور چہرے پر لگائیں اور پانچ منٹ بعد دھولیں. اس سے چہرے کے داغ دھبے اور بدنمائی دور ہوجائے گی.

جدید دور کا زہر، چینی


ہمارے یہاں چینی قسم قسم کے کھانوں میں استعمال کی جاتی ہے۔تاہم چینی کی زیادتی انسانی جسم کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایک عام انسان کو زیادہ سے زیادہ روزانہ صرف 40 گرام چینی استعمال کرنا چاہیے۔یہ مقدار چینی کی نو چمچیاں بنتی ہیں۔اس سے زیادہ چینی کا استعمال آپ کو درج ذیل طبی مسائل کا شکار بنا سکتا ہے

ذیابیطس
جن ممالک میں چینی کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے ،وہاں اس موزی مرض کی شرح کافی بلند ہے۔امریکا میں 51 ہزار مرد وخواتین پر ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ میٹھے مشروبات جیسے میٹھی آئس ٹی، انرجی ڈرنکس وغیرہ استعمال کرتے ہیں، ان میں ذیابیطس چمٹنے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح تین لاکھ سے زائد افراد پر ہونے والی ایک اور تحقیق نے بھی اس نتیجے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بہت زیادہ مشروبات کا استعمال نہ صرف وزن میں اضافے کا باعث بنتا ہے بلکہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کا مرض بھی لاحق ہوسکتا ہے۔

امراض دنداں
یہ کوئی راز نہیں کہ بہت زیادہ چینی اور دانتوں کے امراض کے درمیان تعلق موجود ہے۔ درحقیقت یہ میٹھی شے دانتوں کی صحت کی دشمن ہے اور اسے کیوٹیز جنم لینے کا بڑا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ طویل عرصے سے دندان ساز مطالبہ کر رہے ہیں کہ لوگوں کو روزانہ چینی کی چھ چمچیاں استعمال کرنی چاہیں۔ ایک ماہر کے مطابق دانتوں کی فرسودگی اس وقت عمل میں آتی ہے جب عام چینی کے استعمال سے دانتوں کی سطح پر بیکٹریا پیدا ہوتے ہیں۔ مٹھاس سے تیزاب بھی پیدا ہوتا ہے جو دانتوں کی سطح تباہ کردیتا ہے۔

ختم نہ ہونے والی بھوک
ایک ہارمون، لپٹین جسم کو بتاتا ہے کہ کب اس نے مناسب حد تک کھالیا ہے۔ جن لوگوں میں اس ہارمون کی مزاحمت پیدا ہو جائے تو انہیں پیٹ بھرنے کا اشارہ کبھی موصول نہیں ہوتا اور یہ وزن کنٹرول کرنے کے لیے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ کچھ طبی تحقیقی رپورٹوں میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ لپٹین کی مزاحمت موٹاپے کے اثرات میں سے ایک ہے۔ مگر چوہوں پر ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ بہت زیادہ چینی کا استعمال خاص طور پر اس کا سیرپ جو کولڈ ڈرنکس میں عام ہوتا ہے، براہ راست لپٹین کی سطح معمول سے زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ یوں اس ہارمون سے متعلق جسمانی حساسیت میں کمی آجاتی ہے۔

موٹاپا
یہ چینی کے زیادہ استعمال سے لاحق ہونے والے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔ روزانہ صرف ایک مشروب کا استعمال ہی ایک سال میں تین کلو وزن بڑھا دیتا ہے۔ جبکہ مشروب کا ہر کین بہت زیادہ موٹاپے کا امکان بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ مشروبات کا استعمال مضر ہے مگر دیگر میٹھی غذائیں کا بھی موٹاپے سے تعلق کافی پیچیدہ ہے۔ چینی براہ راست موٹاپے کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔ ساتھ ساتھ ذیابیطس، میٹابولک سینڈروم یا منفی عادات جیسے زیادہ غذا کا حد سے زیادہ استعمال اور ورزش نہ کرنا بھی اس کا باعث بنتے ہیں۔

انسولین کی حساسیت
جب آپ ناشتے میں بہت زیادہ مٹھاس پر مشتمل غذا استعمال کریں تو کیا ہوگا؟ یہ آپ کے جسم میں انسولین کی طلب کا مطالبہ بڑھا دے گی۔ انسولین وہ ہارمون ہے جو غذا کو قابل استعمال توانائی میں تبدیل کرنے کا کام کرتا ہے مگر جب اس کی مقدار زیادہ ہو تو جسم اس کے حوالے سے کم حساس ہوجاتا ہے اور خون میں گلوکوز جمنے لگتا ہے۔ ایک تحقیق کے دوران محققین نے چوہوں کو چینی کی بہت زیادہ مقدار سے بنی خوراک استعمال کرائی تو ان میں انسولین کی مزاحمت فوری طور پر سامنے آگئی۔ انسولین کی مزاحمت کی علامات میں تھکن، بھوک، دماغ میں دھند چھا جانا اور ہائی بلڈ پریشر شامل ہیں۔ جبکہ یہ پیٹ کے اردگرد اضافی چربی بھی پیدا کر دیتی ہے۔

لبلبے کا کینسر
برطانیہ کی کچھ طبی تحقیق رپورٹوں میں زیادہ چینی والی غذاؤں کے استعمال اور لبلبے کے کینسر کے خطرے میں اضافے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس تعلق کی وجہ ممکنہ طور پر یہ ہے کہ زیادہ میٹھی غذائیں موٹاپے اور ذیابیطس کا باعث بنتی ہیں اور یہ دونوں لبلبے کے افعال پر اثر انداز ہوکر کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایک تحقیق میں چینی کے زیادہ استعمال اور کینسر کے خطرے کے درمیان تعلق کی تردید کی مگر محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

امراض گردہ
چینی سے بھرپور غذا اور بہت زیادہ مشربات کا استعمال گردوں کے امراض کا خطرہ بھی بڑھا سکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق گردوں کے نقصان اور میٹھے مشروبات کے درمیان تعلق ایسے افراد میں سامنے آیا ہے جو روزانہ دو تین مشروب نوش کریں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چوہوں کو چینی سے بھرپور غذا کا استعمال کرایا گیا تو ان جانوروں کے گردوں نے آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیا جبکہ ان کے حجم میں بھی اضافہ ہوا۔

بلڈپریشر
عام طور پر نمک کو بلند فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر کا باعث سمجھا جاتا ہے مگر بہت زیادہ چینی کھانے کی عادت بھی آپ کو اس جان لیوا مرض کا شکار بناسکتی ہے۔ مختلف طبی رپورٹوں کے مطابق طبی ماہرین نے بلڈ پریشر کے حوالے سے سفید دانوں پر غلط توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ تحقیق کے مطابق نمک کے مقابلے میں اس غذا پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو لت کی طرح انسانی دماغ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ ہے چینی۔ محققین کے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ چینی ہضم کرنے سے یورک ایسڈ پیدا ہوتا ہے یعنی ایسا کیمیکل جو ہائی بلڈ پریشر کا باعث بنتا ہے۔ تاہم محققین کے مطابق اس حوالے سے طویل المعیاد تحقیق کی ضرورت ہے۔

دل کی بیماریاں
کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی معمولی سی بے پرواہی یا منہ کے ذائقے کا چسکا آپ کو دل کی بیماریوں کا شکار بنا سکتا ہے۔ جی ہاں بہت زیادہ میٹھی اشیا کھانے کی عادت آپ کے دل کی صحت کے لیے تباہ کن ہے خاص طور پر اگر آپ ایک خاتون ہیں۔ امراض قلب کو ایڈز یا کینسر جتنی توجہ تو نہیں ملتی مگر یہ دنیا میں اموات کا باعث بننے والی چند بڑی وجوہ میں سے ایک ہیں کیونکہ ذیابیطس اور موٹاپے جیسے عناصر انہی کے باعث جنم لیتے ہیں۔ ایک تحقیق میں چوہوں پر کیے جانے والے تجربات سے معلوم ہوا کہ بہت زیادہ چینی والی غذاؤں کے استعمال سے ہارٹ فیل کے کیس زیادہ سامنے آنے لگے جبکہ بہت زیادہ چربی یا نشاستہ دار غذاؤں کے استعمال سے اتنا خطرہ پیدا نہیں ہوا۔ ہزاروں افراد پر ہونے والی ایک تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ بہت زیادہ چینی کے استعمال اور دل کے امراض سے ہلاکتوں کے خطرے میں اضافے کے درمیان تعلق موجود ہے۔ اس تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنی روزمرہ کیلوریز کی ضروریات کا 17 سے 21 فیصد حصہ چینی سے پورا کرتے ہیں، ان میں امراض قلب سے ہلاکت کا خطرہ 38 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

جگر کے امراض
بہت زیادہ مقدار میں چینی آپ کے جگر کو بہت زیادہ کام پر مجبور کرتی ہے، یوں جگر خراب ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق چینی کو جس طرح ہمارا جسم استعمال کرتا ہے، وہ جگر کو تھکا دینے اور متورم کردینے کے لیے کافی ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ چینی کی بہت زیادہ مقدار جگر پر غیر الکحلی چربی بڑھنے کے مرض کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ چربی بتدریج پورے جگر پر چڑھ جاتی ہے۔ عام فرد کے مقابلے میں دو گنا زیادہ مشروبات استعمال کرنے والے افراد میں اس مرض کی تشخیص زیادہ ہوتی ہے۔ جگر پر غیر الکحلی چربی کے امراض کے شکار بیشتر افراد کو اکثر علامات کا سامنا نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ کافی عرصے تک اس سے آگاہ بھی نہیں ہوپاتے۔

ساگودانہ، استعمال کے طریقے اور فوائد

ساگودانہ سے سب واقف ہوں گے جسے عام طور پر سابودانہ بهی کہتے ہیں مگر یہ حاصل کیسے ہوتا ہے یہ بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں، آپ کے لیے موتیوں جیسی غذا کے بارے میں معلومات چن کر لایا ہوں. لائیک کریں، کمنٹس کریں، شئیر کریں اور خود بهی اپنائیں.


ساگو دانہ، "ساگو" نامی درخت کا پھل کہلاتا ہے جسے ملاکو کے جزیروں میں بویا گیا، اس کے علاوہ ساگو دانہ New Guinea میں "ساگو پام" کے درختوں سے حاصل کیا گیا۔ یہ موتیوں کی طرح دانے ہوتے ہیں جنہیں دودھ یا پانی میں پکایا جاتا ہے اور فراہم کیا جاتا ہے سستی غذا میں بہترین اجزاء پائے جاتے ہیں 

ساگو دانہ میں
94 فی صد نشاستہ،

0.2 گرام پروٹین،

0.5 گرام غذائی ریشہ،

10 ملی گرام کیلشیم،

1.2ملی گرام لوہا،

شامل ہوتا ہے۔ اسی لیے زود ہضم اور بھرپور غذائیت سے بھرپور ساگو دانہ بچوں اور بیماروں مریضوں کے لیے بہترین غذا ہے۔

اسکے علاوہ ساگو دانہ کی کھیر انتہائی مقوّی اور مزے دار میٹھا ہے اور ساگو دانے کو نمکین پانی میں اُبال کر، اس آمیزہ کو خشک کیا جاتا ہے اور پھر گرم تیل میں تَل کر ساگو دانے کی "پھُول بڑیاں" تیّار کی جاتی ہیں جو چائے کے ساتھ ایسا مزا دیتی ہیں کہ آپ بے اختیار واہ واہ کہہ اُٹھیں گے۔

ساگودانہ سے ہم سب ہی بخوبی واقف ہیں، ہر گھر میں استعمال ہونے والا ساگودانہ اپنے اندر بے شمار فوائد سموئے ہوئے ہے، یہ سفید اور گول چھوٹے چھوٹے موتیوں جیسے دانے ہوتے ہیں جنہیں بعض لوگ سابو دانہ بھی کہتے ہیں۔ ساگودانہ بہت ہلکی غذاہے، عموماً لوگوں میں اسے پیٹ کی خرابی، بیماری یا بچوں کی خوراک کے حوالے سے جانا جاتا ہے البتہ بچوں، بیمار افراد اور بزرگوں کے علاوہ اسے صحت مند لوگ بھی استعمال کرسکتے ہیں، یہ نہایت سستا اور آسان طریقہ ہے جسکے ذریعے آپ اپنی توانائی بحال کرکے صحت مند زندگی کی طرف گامزن ہوسکتے ہیں، یہ بہت ہلکی اور زود ہضم غذا ہے

ساگودانہ کے استعمال کے طریقے:

*اسے کھیر، پڈنگ، سوپ، کیک، پین کیک، بریڈ، کھچڑی اوراسکے علاوہ بائنڈنگ یعنی کسی بھی چیز کو گاڑھا کرنے کے لئے استعمال کیاجاتاہے

*خالی دودھ یا پانی میں پکا کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اورگاڑھا ہونے پر حسب ضرورت چینی ملا کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

*جو بچے اسے کھانا پسند نہ کریں تو آپ انکے لئے ساگو دانہ کو دودھ میں پکا کرپھر چھان کرانھیں وہ دودھ پلا سکتے ہیں۔

*اسے آلو میں ملا کراس کے مزیدار کٹلس بھی بنائے جا سکتے ہیں۔

*اس کی کھیر میں بالائی، کھویا، پستہ، بادام ملا کر مٹی کے پیالوں میں جماکر کھائیں چاہیں تو عرق گلاب یا کیوڑہ شامل کر لیں۔

ساگودانہ کے فوائد:

ساگودانہ میں چھپے ہیں صحت کے وہ فوائد، جو آپکے لئے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔

۱۔ پٹھوں کی افزائش میں مدد اسے آپ اپنی روز مرہ کی غذا میں شامل کرسکتے ہیں۔ ساگودانہ آپکو ایک صحت مند پروٹین فراہم کرتاہے، ساگودانہ کا استعمال پٹھوں کی مضبوطی کے لیے کیا جاتا ہے۔

۲۔ ہڈیوں کی نشوونماکو بہتر بناتاہے اس میں موجود کیلشیئم، آئرن اور فائبر، ہڈیوں کی صحت اور لچک کو بہتر بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس کا استعما ل آپکو پورے دن میں ہونے والی تھکاوٹ سے نجات دلا سکتاہے۔ اس کے علاوہ اسے بچوں کی ابتدائی غذاؤں مین شامل کیا جاتا ہے تاکہ ان کی ہڈیوں میں جان آئے اور قد بڑھے۔

۳۔ بلڈپریشر کنٹرول رکھنے میں معاون اسکا ایک اور مزید فائدہ یہ ہے کہ بلڈ پریشر کے مریض اگر اسکا استعمال رکھیں تو وہ بآسانی اپنے بلڈ پریشر کے مسئلے پر قابوپا سکتے ہیں۔ اس میں موجود پوٹاشیم خون کی گردش کو بہتر بناکر آپکے قلبی کے صحیح طرح کام کرنے میں معاون ہوتا ہے۔

۴۔ توانائی کے فروغ کے لئے کثرت یا دیگر جسمانی سرگرمیوں میں زیادہ دیرتک مشغول رہنے سے جسم کی توانائی کم ہونے لگتی ہے اور تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے ۔ ایسے میں اگر اپنے کھانے میں ساگودانہ شامل کرلیا جائے تو اس سے آپ کی توانائی فوری بحال ہو جائے گی۔ ناشتے میں بھی اس کا استعمال بے حد مفید ہے۔ ساگودانہ کا ناشتہ کرکہ آپ پورا دن چست و توانا رہ سکتے ہیں۔

۵۔ وزن میں اضافہ کے خواہشمند افراد کے لئے اگر آپ وزن بڑھانے کے خواہش مند ہیں تو آپ ساگودانہ استعمال کریں۔ ہمارے ہا ں عموماً مائیں اپنے بچوں کے دبلے پن کی وجہ سے پریشان نظر آتی ہیں۔ ساگودانہ کھلانے سے بچے کا وزن بھی بڑھے گا اور یہ سپلیمنٹس سے زیادہ صحت کے لیے مفید ہے۔

۶۔ پیدائشی نقائص کو روکتاہے ساگودانہ میں فولک ایسڈ اور وٹامن بی کمپلیکس ہوتاہے جو عام پیدائشی نقا ئص کے خلاف، حفاظت کرتاہے اور اس سے بچے کی مناسب نشونمامیں مدد ملتی ہے۔ اس لیے اسے حاملہ خواتین کو بھی ضرور استعمال کرنا چاہیے۔

۷۔ عمل انہضام کو بہتر بناتاہے یہ آپکے انہضام کے نظام کو بہتر بناتا ہے۔ اس سے معدے کے عام مسائل جیسے قبض، بدہضمی، اپھارہ، گیس وغیرہ کے ساتھ ساتھ کولیسٹرول کی سطح کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ سفید ساگودانہ جسم کی چربی بھی کم کرتا ہے۔

۸۔ قد میں اضافہ کا سبب اگر آپ بڑھنے والے بچو ں کوساگودانہ کھلائیں تو اسکے باقاعدہ استعمال سے آپکے بچوں کے قدمیں اضافہ ہوسکتاہے۔بچوں کے لئے یہ بے حد فائدہ منداورقد میں اضافہ کے لیے بہترین غذا ہے

————————————————————
پلیز ان معلومات کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں

پیٹ کی گیس سے نجات حاصل کرنے کے چند آسان نُسخے

بعض اوقات نظامِ انہضام کی بے قاعدگی کی وجہ سے معدے میں گیس جمع ہوجاتی ہے جو کہ سخت بے چینی اور تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ اس مسئلے کا قدرتی حل بہت آسان اور سادہ ہے جو کہ دراصل روزمرہ کی کچھ غذائی اشیاء میں ہی پوشیدہ ہے۔اس سلسلے میں چند ایک نُسخے درجِ ذیل ہیں۔


صنوبر کا پھل جو کہ چھوٹی چھوٹی گولیوں کی صورت میں ہوتا ہے، انتہائی مفید ہے۔ کھانے کے بعد حسبِ ضرورت چبا لینا چاہیئے۔

پیٹ کے مسائل خصوصاً گیس اور درد وغیرہ کے لئے سونف کا استعمال ایک آزمودہ نُسخہ ہے، یہ جگر اور گُردوں کے لئے بھی مفید ہے۔

ہاضمے کو درست رکھنے کے لئے الائچی بھی فائدہ مند ہے، اسے سبزیوں اور چاولوں میں پکاتے وقت ڈالا جاسکتا ہے یا چائے اور قہوے میں ڈال کر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

دھنیا گیس کو ختم کرتا ہے اور ہاضمے کو بھی تیز کرتا ہے۔ خوشبو اور ذائقہ کے ساتھ ساتھ ہچکیوں سے بھی نجات دلاتا ہے، اسے کھانا پکاتے وقت شامل کرنا مفید ہے۔

پیٹ میں گڑبڑ اور گیس کا ایک اور اچھا علاج لیموں بھی ہے، کھانے کے بعد ایک کپ پانی میں ایک چمچ لیموں کا رس اور آدھا چمچ بیکنگ سوڈا ڈال کر استعمال کرنا بہت مفید ہے۔

ہاضمے اور خصوصاً گیس کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ہلدی بھی انتہائی مفید ہے، اسے سبزیوں یا چاولوں میں ڈال کر استعمال کرنا مفید ہے۔

اس کے علاوہ ادرک، لہسن، دارچینی، سونٹھ، اجوائن اور دیگر گھریلو اشیاء اس مرض میں اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔

میعادی بیماریوں میں مبتلا افراد اپنے معالج کے مشورے سے گھریلو نُسخے آزمائیں۔ شیئر کریں تاکہ باقی لوگ بھی مستفید ہو سکیں۔

آپ کو یہ آرٹیکل کیسا لگا؟ لائک یا کمنٹ کر کے اپنی رائے کا اظہار کریں۔ شکریہ

سردیوں میں میک اپ کے لیے چند مفید و کارآمد باتیں

موسم سرما میں ہماری جلد کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرد اور خشک ہوائیں جلد کو کھردرا اور خشک بنا دیتی ہیں۔ کبھی کبھار حساس جلد پر یہ خشکی اس قدر ہوتی ہے کہ جلد کی سطح پر اس کی خشک تہہ سی ہوتی ہے جو جھڑنے لگتی ہے۔ نتیجتاً جلد پر خراشوں اور جھریاں بننے کا عمل تیزی سے بڑھنے لگتا ہے، جلد کی ایسی خراب اور حساس صورت حال میں کسی بھی قسم کا میک اپ کرنا غیر ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لیے میک اپ سے پہلے اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کہ جلد صحت مند ہو، تاکہ میک اپ کے بعد وہ اچھا تاثر قائم کرے۔ جلد کی حفاظت کے لیے چند ضروری اقدام کرلیے جائیں، تو سرد موسم میں جلد ہمیشہ تروتازہ اور نرم و ملائم رہ سکتی ہے۔


💄 سردیوں کا آغاز ہوتے ہی اپنی روزمرہ کلینزنگ کی روٹین کو تبدیل کرنا ازحد ضروری ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب آپ فومنگ جیل کے تیارکلینزنگ استعما ل کر رہی ہیں۔ ان کے بجائے milky اور کریم والے کلینزنگ سے چہرے کی روزانہ کلینزنگ کریں اور انہی کی مدد سے جلد پر آہستگی سے مالش بھی کریں۔ یہ عمل جلد کو نرم بنائے گا اور خشکی کو دور کرے گا اور پھر صاف پانی سے دھولیں۔ اس کے بعد کاٹن کے تولیے یا ٹشوپیپر کی مدد سے چہرہ خشک کر لیں۔

💄 کلینزنگ کے بعد اور میک اپ شروع کرنے سے قبل سب سے پہلے فاؤنڈیشن لگانا ضروری ہے۔ ٹھنڈے موسم کی مناسبت سے فاؤنڈیشن کی زیادہ مقدار لگائی جاتی ہے اور اس کا زیادہ بہتر طریقہ یہی ہے کہ اسے کسی اچھے اور معیاری موئسچرائزر کے ساتھ ملا کے لگایا جائے۔ اس طرح سے جلد میک اپ کے بعد کسی بھی وجہ سے خشک محسوس نہیں ہوگی۔ فاؤنڈیشن ہمیشہ اپنی ’اسکن ٹون‘ کو مد نظر رکھ کر ہی منتخب کیا کریں۔

💄 عام طور خواتین اس بات کا خیال کرتی ہیں کہ سن اسکرین بلاک یا سن کریم کا استعمال صرف گرمیوں میں ہی کیا جانا چاہیے، کیوں کہ گرمیوں میں سورج کی تپش اور حدت زیادہ ہوتی ہے، لیکن اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جس طرح گرم موسم میں سن اسکرین لگانا اہم ہے بالکل اسی طرح موسم سرما میں بھی یہ ضروری ہے۔ ایسے سن اسکرین جن میں spf 30 موجود ہوں استعمال کیے جانے چاہئیں اور اسے اپنے معمولات کا لازمی حصہ بنالیں کہ جب بھی دن کے اوقات میں گھر سے باہر جانا مقصود ہو تب سن اسکرین لگا لیا جائے۔

💄 یخ بستہ اور خشک ہواؤں سے جلد کو محفوظ رکھنے کے لیے موئسچرائزر کی مقدار میں اضافہ کرلیں اور اس کے ساتھ ساتھ جب گھر سے باہر جانا ہو تب چہرہ کو دوپٹے سے ڈھانپ لیں۔

💄 ٹھنڈے اور خشک موسم میں اکثر چہرے پر سرخی سی آجاتی ہے۔ یہ زیادہ تر گالوں، ناک اور تھوڑی پر ہوتی ہے۔ میک اپ سے قبل اسے دور کرنے کے لیے اس پر بغیررنگ کا کنسیلیر لگائیں۔

💄 جلد کو خشکی سے محفوط رکھنے کے لیے موئسچرئزانگ کریم سے بھرپور ماسک بہتر نتائج دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ نائٹ کریم کو رات میں دس سے پندرہ منٹ تک لگا کر رکھیں، اس کے بعد اضافی کریم کو ایک ٹشو پیپر کی مدد دے صاف کرلیں۔

💄 ٹھنڈے اور خشک موسم میں جلد کے ساتھ ساتھ ہونٹ بھی بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ یہ موسم انہیں خراب کر دیتا ہے۔ ان پر لکیریں پڑنے لگتی ہیں اور خشک ہونے کی وجہ سے ہونٹ پھٹنے لگتے ہیں، کبھی کبھار صورت حال اس حد تک خراب ہو جاتی ہے کہ ان میں سے خون بھی رسنے لگتا ہے اس تکلیف دہ صورت حال سے بچنے کے لیے ان پر ہمہ وقت لپ بام لگائیں اس لپ میں بام سن اسکرین کی خوبی بھی موجود ہونی لازمی ہے عام طور پر استعمال کی جانے والی کلرز لپ اسٹک کو اس موسم میں زیادہ دیر تک لگائے رکھنے کا مطلب ہونٹوں کو مزید خشک کرنا ہوتا ہے ۔

💄 سرد موسم میں میک اپ کے لیے آ پ کے رنگوں کا انتخاب کھلتا ہو ا ہونا چاہیے، جیسے کہ رائل بلو، شوخ جامنی، ہلکا سرخ اور سبزاور فیروزی رنگ شامل ہیں۔ قدرتی رنگ جیسے سیاہ، گہرا سرمئی اور نیلے رنگ کو سفید رنگ کے امتزاج کے ساتھ اختیار کیا جا سکتا ہے۔

💄 لپ اسٹک کے لیے سرد موسم میں لپ گلوس یا لپ بام کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس کے لیے بغیر رنگ کے لپ گلوس یا پھر ہلکے گلابی رنگ کے گلوس بہترین ثابت ہو سکتے ہیں۔ کلرز لپ اسٹک میں میرون اور سرخ سردیوں کے رنگ شمار کیے جاتے ہیں۔

💄 آنکھوں کے میک اپ میں شیڈ کے لیے بنیادی رنگوں میں سلور، بھورا، سرمئی اور سنہرا بہتر رہتے ہیں۔ لائنر کے لیے ہلکا یا گہرا سرمئی یا کاربن رنگ بہترین انتخاب ثابت ہوتے ہیں۔

دن بھر تروتازہ رہنے کے 6 مفید ٹوٹکے

ماہرین نے 6 ایسے نسخے پیش کیے ہیں جو پورے دن آپ کو تروتازہ اور چوکنا رکھتے ہیں تاکہ آپ غنودگی سے محفوظ رہتے ہوئے اپنے کام باآسانی انجام دے سکیں.


1- کمرے میں اندھیرا نہ ہو:
خواب گاہ یا کمرے میں ایسا انتظام رکھیں کہ صبح ہوتے ہی روشنی آپ تک پہنچے۔ اگر ممکن ہو تو کمرے کی کھڑکیاں کھول کر سوئیں تاکہ تازہ ہوا اندر آتی رہے جو صحت کے لیے فرحت بخش ہوتی ہے۔ صبح بیدار ہونے کے لیے روشنی خصوصی اہمیت رکھتی ہے اور یہی روشنی نیند کو باقاعدہ بناتی ہے۔ اندھیرا نیند لاتا ہے تو روشنی بیدار کرنے میں مدد دیتی ہے۔

2- ٹھنڈے پانی سے غسل:
ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ پانی دماغ کے بعض حصوں کو جگا کر بیداری کو ممکن بناتا ہے اور یوں تھکاوٹ اور غنودگی کم ہوجاتی ہے کیونکہ اس سے جسم کا میٹابولزم کا نظام بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹھنڈا پانی بدن کے اعصابی نظام کو متحرک کرتا ہے جس کا اثر پورے دن رہتا ہے لیکن ہرگز یہ عمل سردیوں میں نہ کریں کیوں کہ اس سے آپ کی صحت پر منفی اثرات بھی پڑھ سکتے ہیں۔

3- پانی کا زیادہ استعمال:
صبح برش کرنے کے بعد ایک سے 2 گلاس پانی پی لیں اس کی وجہ یہ ہے کہ نیند کے 8 گھنٹے تک آپ پانی نہیں پیتے اور پسینے وغیرہ سے بدن میں پانی کی قلت ہوجاتی ہے۔ پانی کی کمی دماغ کو شدید متاثر کرتی ہے جب کہ مناسب مقدار میں پانی نہ پینے سے دماغی ارتکاز اور جسمانی پھرتی کم ہوجاتی ہے۔ اس لیے پانی کا بھرپوراستعمال کریں۔

4- صحت سے بھرپور ناشتہ:
ناشتہ دن کا سب سے اہم کھانا ہے جس کی اہمیت ہر روز بڑھتی جارہی ہے اس لیے کوشش کریں کہ میٹھی اشیا کم کھائیں اور اس کی بجائے ریشے (فائبر) اور کاربوہائیڈریٹ والی خوراک کا استعمال کریں کیونکہ انہیں کھانے سے بدن چست اور توانا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ دلیہ، سیریلز اور ایسی ہی دیگر اشیا کا ناشتہ بہت مؤثر رہتا ہے جو بھوک دیر سے لگاتا ہے اور آپ کو توانا اور چاق و چوبند رکھتا ہے۔ آپ کو میٹھی اشیا مثلاً ڈونٹس وغیرہ نہ کھانے کا مشورہ اس لیے دیا جارہا ہے کہ مٹھاس کی توانائی جلدی ختم ہوجاتی ہے اور بھوک جاگ جاتی ہے جس کا نتیجہ جسمانی سستی کی صورت میں نکلتا ہے۔

5- نارنجی کا رس:
اگرصبح ایک گلاس اورنج جوس پی لیا جائے تو یہ صحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کھٹے رسیلے پھلوں میں فلیونوئڈز پائے جاتے ہیں جو نہ صرف دماغ کو حاضر رکھتے ہیں بلکہ یادداشت بہتر بنانے سمیت جسمانی ردِعمل کو بھی مؤثر بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھول اور نسیان کے امراض کو بھی کم کرتے ہیں۔

6- ورزش:
صبح کی تیز واک کا کوئی متبادل نہیں۔ صبح کی ورزش پورے دن مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس لیے صبح واک کریں اور تیز قدموں سے کم ازکم 30 سے 40 منٹ تک واک کریں کیونکہ اس سے دماغ کا ایک حصہ ہپوکیمپس بہت سرگرم ہوتا ہے اور یہ گوشہ یادداشت اور سیکھنے کے عمل میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔

مچھلی، خنک موسم کی خاص غذا

سرد ہواؤں، دھند اور بارش میں چٹ پٹی اور گرما گرم چیزیں کھانے کو بہت جی چاہتا ہے اور اگر اس غذا میں صحت کا خزانہ بھی پنہاں ہو تو کیا ہی کہنے۔ سرد موسم کی شدت کا مقابلہ کرنے کے لیے مچھلی سرفہرست ہے، چاہے وہ کسی بھی صورت میں پکی ہوئی کیوں نہ ہو۔ یہ آپ کے دسترخوان کی رونق بڑھانے کہ ساتھ ساتھ آپ کی صحت کی بھی ضامن ہے۔


ہمارے ملک میں عموماً روہو، مہاشیر، پانول، کھگا، موری ملی اور جھینگا مچھلی شوق سے کھائی جاتی ہے۔ دریائے سندھ میں اس کی ایک قسم ’پلا‘ ملتی ہے۔ اس میں کانٹے اگرچہ زیادہ ہوتے ہیں، لیکن لذت کے اعتبار سے یہ بے حد ذائقے دار اور افادیت کے لحاظ سے بے پناہ طاقت وَر ہوتی ہے۔

مچھلی کی افادیت اس اعتبار سے بھی مسلّمہ ہے کہ اس میں بعض ایسے اجزا شامل ہوتے ہیں، جو چھوٹے یا بڑے گوشت میں نہیں پائے جاتے۔ اکثر لوگ لا علمی میں باسی مچھلی خرید لیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں چلتا کہ خریدی جانے والی مچھلی تازی ہے یا نہیں۔ تازہ مچھلی کی پہچان یہ ہے کہ اس کے گلپھڑے سرخ گلابی ہوتے ہیں، جب کہ باسی مچھلی کے گلپھڑے مٹیالے گہرے سیاہی مائل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اوپر سے مچھلی کی جلد کو دبا کر دیکھا جائے، تو تازہ مچھلی اسی حالت میں واپس آجائے گی لیکن باسی مچھلی جہاں سے دبائی گئی ہو گی، وہاں سے اس کی جلد ویسے ہی دبی رہ جائے گی۔

مچھلی میں 78 فیصد پانی، لحمیات 22 فیصد اور تھوڑی مقدار میں نمک، چونا، فاسفورس اور فولادی اجزا کے ساتھ حیاتین الف بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس میں نشاستہ نہیں ہوتا۔ ایک چھٹانک مچھلی میں 52 حرارے ہوتے ہیں اور اس کی خصوصیات ہے کہ یہ تین چار گھنٹے میں ہضم ہو جاتی ہے۔

انسانی صحت کے لیے آئیوڈین بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی کمی سے جسم کا غدودی نظام کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ بہت سے ممالک جہاں سمندری غذا کا استعمال کم ہو تا ہے، وہاں کے لوگ اکثر اسی بیماری کا شکار رہتے ہیں۔

جو مچھلی پہاڑ کے پانی کے ساتھ نیچے آئے یا کسی چشمے سے نکلے وہ امراض شکم کے لیے نہایت فائدہ مند ہوتی ہے۔ دریا کی مچھلی شیریں اور گرم تاثیر کہلاتی ہے، رنگت نکھارتی ہے۔ نہایت چھوٹی مچھلی بھوک پیدا کرتی ہے اور کھانسی رفع کرتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم مہنے میں کم از کم دو بار اپنی غذا میں مچھلی شامل کر لیں تو یہ بہت مفید ثابت ہو گا، کیوں کہ اس عمل کے ذریعے کئی بیماریوں سے دور رہا جا سکتا ہے۔ مچھلی ہمارے دل کو قوی کرتی ہے، اس سے دل کے امراض کے امکانات 50 فی صد کم ہو جاتے ہیں۔ دل کے ایسے دو ہزار مریضوں پر اس حوالے سے ایک تجربہ کیا گیا۔ جن مریضوں کو پہلی بار دل کا دورہ پڑا تھا، انہیں مہینے میں دو بار مچھلی کھلائی گئی، انہیں اگلے دو برس تک دل کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی، جب کہ مچھلی نہ لینے والے دیگر مریضوں میں یہ شکایات دیکھنے میں آئیں۔

مچھلی بدن میں خون پیدا کرتی ہے۔ بلغم بننے سے روکتی ہے، دل، جگر، دماغ، گردوں اور اعصاب کو طاقت دیتی ہے اور قوت مدافعت کو مضبوط کرتی ہے۔ یہ معدہ پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی اور گیس اور کم زور معدے والوں کے لیے بھی اچھی غذا ہے۔ بھُنی ہوئی مچھلی سب سے زیادہ غذائیت رکھتی ہے۔ اس کے بعد شوربے والی مچھلی بھی غذائی اعتبار سے اہم ہے۔ گلٹیوں کو زائل کرنے کے لیے مچھلی ایک بہت بڑی نعمت ہے، جو لوگ بدہضمی اور غذا نہ ہضم ہونے کی شکایت کرتے ہوں، انہیں صبح و شام چاول اور مچھلی کے کباب کھانے سے چند دنوں میں آرام آجاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مچھلی کا شوربہ پینے سے آنتوں کے زخم ٹھیک ہو سکتے ہیں، قدیم طبیبوں کے مطابق مچھلی تریاق ہے۔ مچھلی ہمیشہ تازہ کھانی چاہئے، کیوں کہ باسی مچھلی مضر اثرات رکھتی ہے۔

مچھلیوں کے برعکس جھینگوں میں کولیسٹرول کی مقداز زیادہ ہوتی ہے، اس لیے جھینگے استعمال کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔ سردی سے ہونے والی کھانسی کو دور کرنے کے لیے بھی مچھلی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔

ہمارے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ جس مہینے کے نام میں لفظ ’’ر‘‘ نہ ہو اس مہینے میں مچھلی نہ کھائی جائے۔ جیسے مئی، جون، جولائی اور اگست… جب کہ دیگر مہینوں میں میں مچھلی کھانا ٹھیک ہے۔ مچھلیوں کی افزائش نسل کے پیش نظر اپریل کو چھوڑ کر یہ کہاوت درست معلوم ہوتی ہے۔ باقی اس قول کے حوالے سے موسمی سختی کا پس منظر ہی درست معلوم ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق مچھلی کھانا جس طرح سے مفید ہے اسی طرح سے مچھلی کا تیل بھی اگر طویل عرصے تک استعمال کیا جائے تو اس سے دل کی شریانیں صاف ہو جاتی ہیں۔ دل کی ان شریانوں کی رکاوٹوں اور سختی کی وجہ سے ہی عارضۂ قلب لاحق ہوتا ہے، جو ایک جان لیوا مرض ہے۔

مچھلی کے تیل کو دماغی عارضوں کے علاج کے لیے بھی مفید قرار دیا جاتا ہے ۔ مچھلی کے تیل میں پایا جانے والا اومیگا 3 ایسڈ دماغ کے لیے بہت مفید ہے۔ اومیگا 3 دل کے افعال اور اس کی مضبوطی کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔ مچھلی میں وٹامن اے اور ڈی بھی وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں، جو آنکھوں کے لیے بے حد مفید ہیں۔

مچھلی کو بہت زیادہ پکا کر یا تیز آنچ پر تل کر استعمال کرنے سے اس کی افادیت کم ہو جاتی ہے۔ بہتر طریقہ استعمال یہ ہے کہ ہلکے مسالے کی مچھلی بغیر تیل کے اوون میں پکالی جائے، یا ابلتے ہوئے پانی میں بھاپ کے ذریعے گلا لی جائے۔ مچھلی اگر تلنا ضروری ہو تو اس بات کا دھیان رکھیں کہ کڑھائی میں تازہ تیل ہو اور کولیسٹرول سے پاک ہو، تاکہ اس کی افادیت ختم نہ ہو۔
(کہکشاں صابر)
Ref: express.pk

سردوخشک موسم میں بالوں سے لیکر پیروں تک کے مفید قیمتی ٹوٹکے

خنک ہوا کے جھونکے اس بات کی نوید ہیں کہ میوے کھانے، گرم کپڑے پہننے اور اپنی نرم ونازک جلد کی حفاظت کرنے کا موسم آرہا ہے۔ یہ سرد اور خشک موسم ہماری جلد کے لیے بہت سے مسائل لے کر آتا ہے، بہتر ہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے تیاری کرلیں۔


جسم کے لیے
♥ ایک عدد لیموں کے چھلکے پیس لیں، اس میں آدھی پیالی مکئی کا آٹا اور پسے ہوئے بادام ملائیں اور پورے موسم سرما میں نہاتے ہوئے اس میں ناریل یا زیتون کا تیل ملاکر مالش کریں گی تو آپ کی جلد نرم و ملائم رہے گی۔ اس نسخے کے ذریعے آپ کالی پڑ جانے والی کہنیوں کو بھی صاف کر سکتی ہیں۔
♥ موسم سرما میں جلد کو موئسچرائز کرنے کے لیے سن فلاور آئل کا استعمال کریں اس میں وٹامن اے اور ای بہت زیادہ ہوتا ہے۔
♥ موسم سرما میں ہفتے میں ایک بار نمک چینی اور تیل کے ساتھ پورے جسم کا مساج کرنا بھی جلد کے لیے بے حد مفید ہوتا ہے۔
♥ ہلدی، بیسن، آٹے کی بھوسی اور دہی میں چند قطرے عرق گلاب میں ملا کے پورے جسم کا مساج کرنے سے بھی جلد خشکی سے محفوظ رہتی ہے۔
♥ چند دانے بادام، ایک اخروٹ اور چند دانے مونگ پھلی پیس کر اس میں دو چمچے دودھ کی بالائی، دو چمچے کھیرے کا رس ایک چمچہ شہد اور دو چمچے عرق گلاب ملا کر کریم بنالیں اور نہانے سے قبل استعمال کریں۔

چہرے کے لیے
سردیوں میں سب سے زیادہ چہرے کی جلد متاثر ہوتی ہے، منہگی کریموں اور لوشنز کے بجائے ہم دیسی نسخوں کے ذریعے بھی ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
♥ رات کو سوتے وقت چہرے پر نیم گرم دودھ یا دودھ کی بالائی کا مساج کریں اور صبح اٹھ کر نیم گرم پانی سے دھو لیں۔
♥ پسی ہوئی ہلدی کو تھوڑی سی دہی میں ملا کر کریم کی طرح لگائیں اور ایک گھنٹے کے بعد چہرہ دھولیں۔
♥ خشک موسم میں چہرہ دھونے کے لیے بیسن کا استعمال کریں۔
♥ مولی کے پتوں کو پیس کر ہفتے میں ایک بار چہرے پر لگایا جائے تو موسم سرما کے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔
♥ کچے آلو کا گودا بنالیں اور اس میں دودھ شامل کر کے چہرے کا مساج کریں، اس سے چہرے کے داغ دھبے دور ہو جائیں گے۔
♥ میتھی دانہ پیس کر اس میں گلیسرین ملا کے چہرے پر لگانے سے جلد پر رونق ہوجائے گی۔
♥ چہرے پر داغ دھبے ہوں تو پالک کا رس نکال کر چہرے پر لگائیں یا پھر پیاز کا رس بھی چہرے کے داغوں پر ملنے سے داغ ختم ہو جاتے ہیں۔
♥ موسم سرما میں فیشل، مساج اور ماسک کے استعمال سے چہرے کو خوب صورت رکھا جا سکتا ہے۔ شہد اور انڈے کی سفیدی کا ماسک اس ضمن میں بہترین ہے۔ فیشل کے لیے ناریل، زیتون اور بادام کا تیل ملا کے مساج کریں۔
♥ اگر چہرے پر مہاسے ہوں تو جائفل کو دودھ میں تھوڑا سا گھِس کر لگائیں، افاقہ ہوگا۔ اس کے ساتھ کچا دودھ روئی کے پھائے کی مدد سے روزانہ کیل مہاسوں پر لگانا بھی مفید ہوگا۔
♥ آٹے کی بھوسی کو دودھ میں ملا کے اس کی ’لئی‘ بنالیں اور چہرے پر روزانہ اس کا لیپ کریں اور آدھے گھنٹے بعد چہرہ نیم گرم پانی سے دھو لیں۔
♥ تھوڑی سی پسی ہوئی گندھک کو دودھ میں ملا کر اس کی ’مرہم‘ سی بنالیں اور اسے کیل مہاسوں پر لگالیں اور دو گھنٹے بعد چہرہ دھولیں.
♥ دن میں دو تین بار تولیے کو نیم گرم پانی میں بھگو کر نچوڑیں اور چہرے پر لگائیں، 10 سے 15 منٹ ایسا کریں۔ چہرے پر خشکی رہے گی نہ کیل مہاسے اور داغ۔
♥ ایک سیب کدو کش کر کے اس کا گودا چہرے پر لگالیں اور کم از کم آدھے گھنٹے کے لیے سیدھی لیٹ جائیں۔ ہفتے میں ایک بار یہ عمل رکنے سے چہرہ کھلا کھلا نظر آئے گا۔
♥ ہفتے میں ایک بار کھیرے کو پیس کر چہرے پر لگانے سے بھی جھائیاں دور ہو جاتی ہیں۔
♥ اگر دانوں کی وجہ سے چہرے پر ان کے گہرے نشان پڑ جائیں تو برف کے پانی میں عرق گلاب ملا کے چہرے پر لگائیں روزانہ دن میں تین چار بار یہ عمل کریں۔

گردن کے لیے
جسم کا مساج کرتے وقت بھی ہم اکثر گردن کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس سے گردن کی جلد کو کسی قسم کا موئسچرائزر نہیں ملتا اور اس کی جلد سے خشکی جھلکنے لگتی ہے۔
♥ دہی میں ہم وزن بیسن ملا کر گردن پر اس کا لیپ کریں۔ خشک ہونے پر دھولیں. ہفتے میں ایک مرتبہ گردن پر کلینزنگ ملک لگا کر صفائی کریں،
♥ لیموں کے رس اور گلیسرین ملا کر روزانہ رات کو گردن پر لگالیں اور صبح کو ایک تولیا گرم پانی میں بھگو کر گردن پر ملیں۔
♥ کبھی کبھار بلیچ کریم سے گردن کی صفائی کرنا بھی ٹھیک رہے گا۔
♥ تازہ لیموں کے چھلکے دن میں دو بار گردن پر ملیں، کچھ دیر بعد سرسوں کے تیل کی مالش کریں، پھر اسے گیلے تولیے سے صاف کر دیں۔
♥ گھی میں تھوڑا سا نمک ملا کر گردن کی مالش کریں، پھر گیلے تولیے سے صاف کرلیں، اس طرح گردن کی جلد نرم اور صاف رہے گی۔
♥ بھنووں اور پلکوں کی خشکی دور کرنے کے لیے سوتے وقت روغن زیتون لگائیں یا نیم گرم دودھ میں فلالین کے کپڑے کو بھگو کر آنکھوں پر رکھ لیں، جب اس کی حرارت ختم ہو جائے تو نیم گرم پانی سے دھو لیں۔

ہونٹوں کی دل کشی کے لیے
♥ روزانہ سونے سے پہلے ہونٹوں پر دودھ کی بالائی لگائیں۔
♥ چٹکی بھر پسی ہوئی پھٹکری ایک چمچہ عرق گلاب، چند قطرے لیموں کے رس میں ملا کر روزانہ رات سوتے وقت لگائیں، اس سے ہونٹوں کی سیاہی دور ہو جائے گی۔
♥ پھٹے ہوئے ہونٹوں پر گائے کا کچا دودھ دن میں تین، چار مرتبہ دس منٹ کے لیے لگائیں۔
♥ ٹماٹر کاٹ کر ہونٹوں پر ملنے سے نرمی ملنے کے ساتھ ساتھ ہونٹ بھی گلابی ہو جاتے ہیں۔
♥ گلاب کی پتیوں کو دودھ میں پیس کر فریج میں رکھ لیں اور روزانہ رات کو ہونٹوں پر ملیں۔
♥ زیتون کے تیل میں لیموں کا رس ملا کر ہونٹوں پر لگائیں۔
♥ ہونٹوں کو نم رکھنے کے لیے بار بار کولڈ کریم یا چپ اسٹک یا لپ بام لگائیں۔

آنکھوں کی حفاظت کے لیے
♥ دھوپ اور سردی سے آنکھوں کو محفوظ رکھنے کے لیے چشمے کا استعمال کیجیے، کھیرے کے قتلے یا استعمال شدہ ’ٹی بیگس‘ ٹھنڈے کرکے آنکھوں پر چند منٹوں کے لیے رکھنا بے حد فائدہ دیتا ہے۔

ہاتھوں کی حفاظت کے لیے
♥ سردیوں میں گھر کے کام کاج کرنے اور خاص طور پر برتن وغیرہ مانجھنے سے ہاتھ خراب ہو جاتے ہیں۔ اس کے لیے آپ روغن بادام، دو چمچے شہد، دو چمچے روغن زیتون، دو چمچے اچھی طرح ملا لیں اور رات سوتے وقت ہاتھوں اور ناخنوں پر ملیں، پھر دستانے پہن کر سو جائیں، صبح نیم گرم پانی سے ہاتھ دھولیں، اس سے آپ کے ہاتھ نرم ملائم رہیں گے۔
♥ سردی سے ہاتھوں پر پڑنے والی سلوٹوں کو دور کرنے کے لیے عرق گلاب تقریباً آدھا پاؤ, روغن بادام 15 گرام پھٹکری اور چار انڈوں کی سفیدی ایک پتیلی میں ملا کر دھیمی انچ پر پکائیں، تھوڑی گاڑھی ہو جائے تو چولہے سے اتار لیں اور بوتل میں بھر کر رکھ لیں، حسب ضرورت استعمال کریں۔ یہ پورے موسم سرما ہاتھوں کے لیے کافی ہوگی۔
♥ ہاتھوں کی نرمی کے لیے دہی میں لیموں کا رس لگا کر مساج کریں۔
♥ پکے ہوئے ٹماٹروں کا گودا، لیموں کا رس اور چند قطرے گلیسرین ملا کر ہاتھوں پر لگائیں ہاتھ نرم و ملائم ہو جائیں گے۔
♥ اکثر سردیوں میں ہاتھ اور چہرے کی جلد پھٹ جاتی ہے۔ اس کے لیے ناریل کے تیل میں موم ملا کر رات کو سونے سے پہلے ہاتھوں کا مساج کریں۔ صبح ہلکے گرم پانی سے دھو لیں۔
♥ سردیوں میں اکثر گرم سرد پانی میں ہاتھ ڈالنے سے ہاتھوں کی جلد پھٹ جاتی ہے۔ برتن وغیرہ دھونے سے جلد متاثر ہوتی ہے، لہٰذا رات کو سوتے وقت روزانہ دودھ کی بالائی کی مالش کریں یا نیم گرم دودھ سونے سے پہلے ہاتھوں پر مل لیں۔
دیگر نسخوں میں انڈہ اور پسی ہوئی پھٹکری ملا کے ہاتھوں پر لگانا خاصا مفید ہے۔ اس کے علاوہ دودھ میں عرق گلاب ملا کر بھی ہاتھوں پر مالش کی جا سکتی ہے۔
♥ زیتون کے تیل میں لیموں کا رس ملا کر یا سرسوں کے تیل میں سرکہ ملا کر بھی ہاتھوں پر ملا جا سکتا ہے۔

پیروں کی حفاظت کے لیے
♥ ہاتھوں کی انگلیوں پر بادام، ناریل یا زیتون کا تیل لگا کر ٹخنے سے ایڑی کی طرف مالش کریں، پھر پیروں کی انگلیوں کی طرف جائیں۔ اس طرح روزانہ رات سونے سے قبل 10منٹ تک مساج کرنا مفید ہوگا۔
♥ اگر آپ کے پیر سخت اور کھردرے ہیں، تو آدھا چمچہ نمک اور آدھا چمچہ ناریل کا تیل نیم گرم پانی میں ملا کر اس میں پاؤں بھگوئیں اور جھاویں سے رگڑ کر صاف کریں۔ دس منٹ بعد پیر خشک کر کے پٹرولیم جیلی لگائیں اور موزے پہن لیں۔ اس طرح چند دنوں میں ہی آپ کے پیر نرم و ملائم ہو جائیں گے۔
♥ پیروں کو ملائم رکھنے کے لیے پیروں کے مردہ خلیے ختم کرنا ضروری ہیں۔ اس کے لیے ایڑیوں، انگوٹھے، انگلیوں، ٹخنے اور تلوے پر سرکے اور دہی لگائیں، پھر نیم گرم پانی سے دھو کر پٹرولیم جیلی لگا کر کچھ دیر کے لیے موزے پہن لیں۔
♥ پھٹی ہوئی ایڑیوں پر بچے ہوئے صابن کے ٹکڑے گلیسرین میں ملا کے لگائیں۔ دو تین بار کے استعمال کے بعد واضح فرق نظر آئے گا۔
♥ سردیوں میں رات کو پاؤں میں ویسلین لگا کر سونے سے بھی پاؤں کی جلد شگفتہ رہتی ہے۔

بالوں کی حفاظت کے لیے
♥ یوں تو بالوں کی خشکی کا کوئی موسم نہیں، مگر موسم سرما میں بالوں سے خشکی سے نجات کا ذریعہ بالوں میں نیم گرم تیل کی مالش ہے۔ نہانے سے ایک گھنٹے قبل بالوں میں نیم گرم تیل لگا کر 10 منٹ مالش کریں۔
♥ خشکی سے نجات کے لیے ہفتے میں ایک بار دہی اور انڈہ ملا کے بالوں کی جڑوں اور سروں پر لگائیں اور دو گھنٹے بعد سر دھولیں ۔
♥ ہفتے میں ایک بار سرکہ اور لیموں کا رس یک ساں مقدار میں لے کر بالوں کی جڑوں میں شیمپو کی طرح لگائیں۔ 15 منٹ بعد سر دھولیں، خشکی کے خاتمے میں مفید رہے گا۔
♥ سردیوں کے موسم میں اگر آپ بالوں کی چوٹی بنا کر رکھیں گی تو بال زیادہ صحت مند رہیں گے۔
♥ سردیوں میں بالوں کو ہفتے میں کم از کم دو بار دھوئیں اور دو بار گرم تولیے سے بالوں کو آدھے گھنٹے لپیٹ کر رکھیں، تو بالوں میں خشکی نہیں ہوگی۔
♥ بالوں کو ہفتے میں ایک بار منہدی کے پتوں سے دھوئیں، اور ایک بار بالوں میں خالص ناریل کا تیل ضرور لگائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر مہینے بالوں کی نوکیں ضرور تراشیں، اس سے بالوں کی نشوونما اچھی ہوتی ہے۔
♥ کبھی کبھی تھوڑا سا سرکہ پانی میں ملاکر اس سے سر دھوئیں، تو یہ بالوںکی صحت کے لیے بے حد مفید ہوگا۔

ہر موسم میں پیاز کا استعمال کریں اور صحت مند رہیں۔ ہمیشہ

پیاز ہمارے کھانوں میں لازمی جزو کا درجہ رکھتی ہے لیکن عمومی صحت کے معاملے میں اس کے بہت سے فائدے بھی ہیں جن سے عام طور پر ہم واقف ہی نہیں یا پھر انہیں سرے سے نظرانداز کرجاتے ہیں۔ ایسے ہی صرف چند فائدے یہاں پیش کئے جارہے ہیں:


پیاز میں وٹامن سی کے علاوہ ایسے قدرتی کیمیکلز بھی شامل ہوتے ہیں جو بیماریوں کے خلاف ہمارے جسم کے دفاعی نظام یعنی امیون سسٹم کو مضبوط بناتے ہیں۔

کرمیم کہلانے والی ایک قدرتی دھات بھی پیاز میں موجود ہوتی ہے جس کی بدولت خون میں شکر کی مقدار قابو رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

زخموں میں جلن کم کرنے اور ایڑیوں کی تکلیف سے چھٹکارا پانے میں بھی پیاز کی افادیت صدیوں سے تسلیم شدہ ہے۔

اگر پیاز کو پکائے بغیر، خام حالت میں کھایا جائے تو یہ جسم کو نقصان پہنچانے والے کولیسٹرول یعنی ’’ایل ڈی ایل‘‘ کو بننے سے روکتی ہے اور آپ کو بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں سے محفوظ کرنے میں بھی مدد کرتی ہے۔

پیاز میں ایسے مرکبات کا انکشاف بھی ہوا ہے جو کینسر سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اگر شہد کی مکھی کاٹ لے تو متاثرہ جگہ پر پیاز کا رس لگانے سے درد کی شدت میں بہت کمی واقع ہوجاتی ہے۔

اسی طرح اگر ہم ’’فری ریڈیکلز‘‘ کی بات کریں جو عمر رسیدگی سمیت درجنوں بیماریوں کی جڑ بھی کہلاتے ہیں، تو پیاز ان کی بھی دشمن ہے اور یہ خاص طور پر معدے کے السر سے بھی بچاتی ہے۔

کچی پیاز/ ہری پیاز کا سبز بالائی حصہ وٹامن اے سے بھرپور ہوتا ہے جسے روزانہ تھوڑی سی مقدار میں کھانے سے ہڈیوں کی نشوونما بہتر ہوتی ہے، بیماریوں سے تحفظ ملتا ہے، تولیدی صلاحیت بہتر ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ نظر بھی تیز ہوتی ہے۔

پیاز ہر موسم میں دستیاب ہوتی ہے البتہ اتنا مشورہ ضرور دیں گے کہ صحت سے متعلق پیاز کے اتنے فوائد پڑھنے کے بعد آپ پیاز کا حد سے زیادہ استعمال شروع نہ کردیجئے گا کیونکہ یہ چیز فائدے کے بجائے نقصان کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔ اس کے بجائے بہتر ہوگا کہ اپنے روزمرہ کھانوں میں پیاز کو مناسب مقدار میں شامل رکھئے۔

ایسا کیا کیا جائے کہ گیس سے چھٹکارا مل جائے؟

مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا، مسئلہ تو مسئلہ ہے، اور اگر یہ مسئلہ ہمارے معدے یا پیٹ سے متعلق ہو تو پھر تو یہ وبالِ جان ہے۔ گیس کا مسئلہ بہت عام مگر گھمبیر قسم کا مسئلہ ہے۔ سردرد، جسم کا کھنچنا، پیٹ میں مڑوڑ اور سینے میں درد، یہ سب گیس کے ہی چیدہ چیدہ تحفے ہیں۔ اب ایسا کیا کیا جائے کہ گیس سے چھٹکارا مل جائے؟


بس کچھ احتیاطی تدابیر اور کچھ گھریلو نسخے آپکی تکلیف میں چند منٹوں سے چند دنوں تک میں افاقہ دلا سکتے ہیں، اپنے کھانے پینے کی روٹین اور معیارِ زندگی بہتر بنا کر اس تکلیف سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ ذیل میں چند گھریلو نسخے پیش کئے جا رہے ہیں، جن سے امید ہے کہ آپ کو اس مرض سے کافی افاقہ حاصل ہو جائے گا۔ انشاء اللہ۔

دیسی گھریلو نسخے:
⭐ باقاعدگی سے واک کرنا گیس کے مرض میں کمی کرتا ہے، روزانہ کم از کم 20 منٹ کی واک کریں۔
⭐ بھوک رکھ کر کھانا کھائیں، نیز کھانا تیز تیز نہ کھائیں بلکہ آہستہ سے چبا چبا کر کھائیں۔
⭐ کھانے کو اچھی طرح چبا چبا کر کھائیں، تیز کھانے سے تیزابیت اور بدہضمی ہوتی ہے جس سے گیس کا مرض تکلیف کا سبب بن سکتا ہے۔
⭐ ٹھنڈا کھانا کھانے سے پرہیز کریں، اور زیادہ مصالحے والی چیزیں کھانے سے بھی اجتناب برتیں۔
⭐ کوئی نہ کوئی جسمانی ورزش (Exercise) کرنا بھی گیس کے مرض میں بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔
⭐ صبح ناشتے میں اسپغول کا چھلکا استعمال کریں، طریقہ کچھ یوں کہ رات بھر کے لئے ایک کھانے کا چمچ اسپغول کا چھلکا تین چمچ پانی میں بھگو دیں، صبح آدھا کپ دودھ اور ایک کھانے کا چمچ چینی شامل کرکے اچھی طرح مکس کریں اور کھائیں۔ انشاء اللہ گیس نہیں ہوگی۔
⭐ سونف کو توے پر بُھون لیں اور کسی جار میں رکھ لیں، اور روزانہ صبح، دوپہر اور شام کو ایک ایک چمچ کھانے سے گیس نہیں ہوگی۔
⭐ سونف کی چائے پینا بھی گیس کے مرض کے لئے مفید ہے۔
⭐ سبز چائے کا استعمال بھی گیس میں بہت مفید ہے مگر یاد رہے کہ الائچی کا استعمال ضرور کیا جائے۔
⭐ کچی مولیوں کا استعمال بھی گیس کے مسئلے میں بے حد مفید ہے۔
⭐ الائچی کے پاؤڈر کو ایک گلاس پانی کے ساتھ پینے سے گیس کے مرض میں فوری آرام آجاتا ہے۔
⭐ جن خواتین و حضرات کو گیس کا مرض لاحق ہو، انہیں چاہیئے کہ وہ تلی ہوئی اشیاء سے پرہیز کریں۔
⭐ ہلدی کا کھانوں میں استعمال گیس کے مسئلے کو ختم کرتا ہے، کوشش کریں کہ ہلدی کو کھانوں میں زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔
⭐ پودینہ کا استعمال بھی گیس کے مرض میں مفید ہے۔
پانی کا استعمال زیادہ کرنا بھی گیس کے مرض کے لئے مفید ہے۔
⭐ کھانا کھانے کے فوراً بعد لیٹنا انتہائی غلط ہے۔ کوشش کریں کہ اس سے بچا جائے۔
⭐ کاربونیٹڈ ڈرنکس CARBONATED DRINKS معدے کے لئے نقصان دہ ہیں، حتی المقدور ان سے بچا جائے۔
⭐ ادرک کی جڑیں اُبلے ہوئے پانی میں ڈال کر مزید اُبالیں اور پھر اس میں شہد ڈال کر پینے سے گیس کا مرض دور ہوتا ہے۔
⭐ لہسن کا سوپ بھی معدے کے لئے ایک مفید نُسخہ ہے۔
⭐ چائے کے بجائے سبز چائے استعمال کریں۔
⭐ کھانے میں کالی مرچ کا استعمال کریں۔
⭐ رات سونے سے پہلے کھانا کھانے سے پرہیز کریں، کم از کم سونے سے تین گھنٹے پہلے کھانا کھائیں۔
⭐ کھانا کھانے کا ایک ٹائم مقرر کریں اور اُس کی سختی سے پابندی کریں۔
⭐ سگریٹ نوشی اور پان چھالیہ وغیزہ سے اجتناب برتیں۔
⭐ ناشتہ ضرور کریں اور کوشش کریں کہ بھرپور کریں۔
⭐ گھر میں وہ چیزیں نہ رکھیں جو آپ کو کھانے میں موافق نہ آتی ہوں۔
⭐ ذہنی دباؤ سے بچیں اور خوش رہا کریں۔

چاند جیسا چہرہ، چمکتی جلد، صندل کے چند آزمودہ نُسخے

صندل ایک خوش بودار پیلے رنگ کی لکڑی کا برادہ ہے، جو جلد کی حفاظت اور دل کشی میں بہت معاون ہے۔ اسے چندن کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ صندل کی خاصیت یہ ہے کہ اس کی خوش بو سے فضا بہت دیر تک معطر رہتی ہے۔ صندل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا ذکر شعروں اور گیتوں میں بھی ملتا ہے۔


خواتین کے استعمال کی بہت ساری آرائشی مصنوعات جیسے فیشل، تیل اور کریم وغیرہ میں شامل کر کے اسے مزید موثر بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں صندل کے ماسک کی کچھ گھریلو ترکیبیں پیش کی جا رہی ہیں، جن کا استعمال نہ صرف جلد کے لیے مفید ہے، بلکہ یہ چہرے کی دل کشی میں اضافے کا باعث بھی بنے گا۔ اگر آپ کے چہرے کی جلد پر کسی قسم کی الرجی ہے تو ماسک لگانے سے پہلے ہتھیلی کی پشت پر لگا کر ماسک کا اثر دیکھ لیں، اگر کوئی مضر اثر نہ ہوتو بہ آسانی استعمال کریں۔

عرق گلاب اور صندل
یہ بہت آسان گھریلو ماسک ہے، ایک پیالے میں دو چمچے صندل کا چورا ڈالیں، اس کے بعد اتنا عرق گلاب ملائیں کہ وہ گاڑھا محلول بن جائے، اس میں کوئی گھٹلی نہیں رہے۔ اب صاف چہرے اور گردن پر یہ ماسک لگائیں اور 20 منٹ بعد ٹھنڈے پانی سے دھو لیں۔ چہرہ گلاب کی طرح کھل اٹھے گا۔

جو اور صندل
ایک بلینڈر میں دو چمچے صندل کا چورا، ایک چمچہ دلیہ، چند گلاب کی پتیاں اورپانی ڈال کر بلینڈ کرلیں۔ اس کا ماسک لگانے سے پہلے دودھ سے چہرہ صاف کریں، اس کے بعد روئی میں عرق گلاب لگا کر چہرے پر لگائیں، جب خشک ہو جائے تو گاڑھا محلول والا ماسک چہرے پر پھیلا کر لگائیں، یہاں تک کہ ماسک خشک ہو جائے۔ اس کے بعد ٹھنڈے پانی سے چہرہ دھو لیں۔ یہ جلد کو صحت مند اور چمک دار بناتا ہے۔

ہلدی اور صندل
ایک شیشے کی پیالی میں دو چمچے صندل کا برادہ ڈالیں، اس کے بعد ایک چمچہ ہلدی ملائیں۔ ان دونوں کو ملانے کے بعد اس میں تین چمچے شہد ملا دیں۔ جب تینوں اجزا یک جان ہو جائیں تو چہرے پر یہ ماسک لگا ئیں اور 20 سے 25 منٹ کے لیے لگا رہنے دیں اور پھر دھو لیں۔

دودھ اور صندل
کچے دودھ میں صندل ملا کر چہرے پر ہلکے ہاتھوں سے مساج کریں اور پھر پندرہ منٹ بعد جب خشک ہو جائے تو منہ دھو لیں۔ یہ ماسک موسم گرما میں جلد کے لیے بے حد مفید ہے۔ خاص طور پر دھوپ سے جھلسے ہوئے چہرے کو صاف کرنے میں خاصا معاون ہے۔

سیب اور صندل
سیب کا چھلکا اتار کر ایک چمچہ گودا نکال لیں اور اس میں ایک چمچہ صندل کا برادہ ملانے کے بعد اسے عرق گلاب سے تر کریں۔ اس کے بعد چہرے پر پھیلا کر لگائیں، 20 منٹ بعد چہرہ دھولیں۔ یہ ماسک مردہ اور بے رونق جلد کے لیے اکسیر ہے۔

ملتانی مٹی اور صندل
ایک پیالی میں ایک چمچہ ملتانی مٹی اور صندل کا چورا لے کر اس میں لیموں کا رس اور عرق گلاب ملا کر محلول بنالیں، اس ماسک کو چہرے پر انگلیوں کی مدد سے لگائیں، جب اچھی طرح سے سوکھ جائے تو منہ دھو لیں۔ یہ ماسک جلد پر بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات کو کم کرتا ہے اور جلد پر پڑنے والی لکیروں اور جھریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

کھیرے اور صندل
دو چمچے کھیرے کے رس میں صندل کا چورا ملا کر گاڑھا ماسک چہرے پر پھیلا کر لگائیں، 20 منٹ بعد دھولیں، یہ ماسک چہرے کی جلد کو تازہ کرتا ہے۔

ایسی 6 گھریلو چیزیں جو کینسر کی وجہ بھی بن سکتی ہیں

ہر انسان فطری طور پر اپنے گھر کو دنیا کی سب سے پیاری اور محفوظ ترین جگہ سمجھتا ہے لیکن اسی گھر میں کینسر (سرطان) کی وجہ بننے والی چیزیں بھی موجود ہوسکتی ہیں۔ گھریلو استعمال کی ان اشیاء میں ایسے مرکبات ہوتے ہیں جن سے بار بار اور زیادہ سامنے ہونے کے نتیجے میں سرطان جیسی خطرناک اور جان لیوا بیماری بھی لاحق ہوسکتی ہے کیونکہ ان میں نائٹروبنزین، فارم ایلڈی ہائیڈ اور میتھائلین کلورائیڈ جیسے خطرناک مادّے شامل ہوتے ہیں۔
یہ مادّے پلاسٹک اور ربر سے بنے عام گھریلو سامان کے علاوہ مصنوعی خوشبوؤں تک میں پوشیدہ ہوسکتے ہیں۔ یہ تحریر ایسی ہی چند گھریلو اشیاء کے بارے میں ہے تاکہ آپ محتاط رہ سکیں۔


خوشبودار موم بتیاں:
مہنگی اور بلند معیار والی موم بتیوں میں (خاص طور پر وہ جنہیں جلانے پر کمرے میں خوشبو پھیل جاتی ہے) شعلہ جلائے رکھنے کے لیے درمیان میں موٹے دھاگے کی جگہ سیسے والی باریک ڈور استعمال کی جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت بازار میں دستیاب 40 فیصد خوشبودار موم بتیوں میں سیسے کی ڈور استعمال کی جاتی ہے۔ اور سیسے کی ڈور والی موم بتی سے فضا میں جتنا سیسہ خارج ہوتا ہے اس سے بچوں کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ شدید طور پر بڑھ جاتا ہے۔ فضا میں سیسے کی آلودگی سے متعلق ماحولیاتی تحفظ کی عالمی تنظیم (ای پی اے) نے جو معیارات مقرر کر رکھے ہیں ان کے مطابق سیسے کی ڈور والی موم بتیوں سے فضا میں خارج ہونے والا سیسہ بچوں کے لیے محفوظ حد سے 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن سیسے کی تباہ کاریاں صرف کینسر تک ہی محدود نہیں کیونکہ اس کی زیادہ مقدار جسم میں پہنچ جانے کا نتیجہ ہارمونوں کے متاثر ہونے، نئی چیزیں سیکھنے میں معذوری اور عادت/ مزاج سے متعلق کئی مسائل کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی اگر آپ کو اپنی اور اپنے بچوں کی صحت عزیز ہے تو خوشبودار موم بتیوں کو پہلی فرصت میں گھر سے نکال باہر کریں اور سوتی ڈور والی موم بتیاں ہی استعمال کریں۔

ایئر فریشنر:
ہوا میں بدبو ختم کرنے اور ماحول خوشگوار بنانے کے لیے ایئر فریشنر کا استعمال بھی ہمارے یہاں گھروں میں عام ہوتا جارہا ہے لیکن ان ہی ایئر فریشنرز میں ایسے طیران پذیر نامیاتی مرکبات (وولاٹائل آرگینک کمپاؤنڈز) ہوتے ہیں جو کینسر کی وجہ بن سکتے ہیں۔ گھروں میں زیادہ استعمال ہونے والے 13 ایئر فریشنرز پر کی گئی ایک تحقیق سے پتا چلا کہ بیشتر ایئر فریشنرز میں تولیدی نظام کو متاثر کرنے اور دمہ پیدا کرنے والے مرکبات موجود ہوتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایئر فریشنرز کی بڑی تعداد میں نہ صرف خطرناک، زہریلے اور کینسر کی وجہ بننے والے مرکبات ہوتے ہیں بلکہ ان کا اندراج ایئر فریشنر کے ڈبے پر موجود اجزاء کی فہرست میں بھی نہیں کیا جاتا۔ یقیناً یہ بات تشویشناک ہے اس لئے بہتر ہے کہ خوشبو کے لیے قدرتی عطر استعمال کیے جائیں جو محفوظ بھی رہتے ہیں۔

آرائشی سامان:
ربر سیمنٹ گوند، مستقل مارکر، ایکرائلک پینٹس اور اس طرح کی دوسری اشیاء جن کا تعلق آرائشی سامان یا ’’آرٹ‘‘ سے ہے وہ الرجی پیدا کرنے اور مختلف جسمانی اعضاء کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کینسر کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔ خاص طور پر بچوں کو ان مصنوعی چیزوں سے بہت خطرہ ہوتا ہے کیونکہ ان کا قدرتی دفاعی نظام اتنا مضبوط نہیں ہوتا کہ ان کے مضر اثرات کا سامنا کرسکے۔

بدبو بھگانے والی مصنوعات:
پسینے سے اٹھنے والی بدبو ختم کرنے اور جسم کو خوشبودار بنانے کے لیے ’’ڈیوڈورینٹ‘‘ کہلانے والی مصنوعات گھروں میں بکثرت استعمال کی جاتی ہیں لیکن صحت کے معاملے میں ان کی شہرت بہت خراب ہے کیونکہ ان میں مختلف الاقسام سرطانوں (کینسرز) کی وجہ بننے والے مرکبات شامل ہوتے ہیں۔ یہ لمبے عرصے تک ہماری جلد پر موجود رہتے ہیں اور ان میں شامل مضر مرکبات نہ صرف جلد پر بلکہ جلد میں جذب ہوکر اندر تک پہنچ جاتے ہیں اور کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔

شیمپو:
بات کچھ عجیب سی لگتی ہے لیکن شمپوؤں میں بھی زہریلے مرکبات شامل ہونے کی خبریں عرصہ دراز سے گردش میں ہیں۔ ان پر ابھی سائنسی مطالعات جاری ہیں لیکن ہمارا مشورہ تو یہی ہے کہ بعد کے پچھتاوے سے بہتر آج کی احتیاط ہے۔

شاور کے پردے:
پلاسٹک سے بنے ہوئے نیم شفاف پردے جنہیں نہاتے دوران کھینچ دیا جاتا ہے، ان میں بھی ایئر فریشنر کی طرح طیران پذیر نامیاتی مرکبات (وی او سیز) شامل ہوتے ہیں۔ یہ صرف غسل خانے ہی میں نہیں بلکہ ارد گرد ماحول میں بھی انتہائی معمولی مقداروں میں خارج ہوکر سرطان سمیت کئی بیماریوں کی وجہ بن سکتے ہیں۔

سر درد سے متعلق کچھ ایسے اسباب جن سے شاید آپ ناواقف ہوں

سر میں درد اپنے آپ میں کوئی بیماری تو نہیں لیکن بعض اوقات شدید تکلیف کا باعث بنتا ہے اور کئی وجوہ سے کسی بھی موسم میں ہوسکتا ہے ان میں سے کچھ اسباب سے ہم واقف ہوتے ہیں جب کہ بیشتر ہمارے علم میں نہیں ہوتے۔


پانی کی کمی:
اگر ہمارے جسم میں پانی کی کمی یعنی ’’ڈی ہائیڈریشن‘‘ ہوجائے تو اس سے بھی سر میں درد ہوسکتا ہے کیونکہ پانی ہمارے جسم کی اہم ترین ضروریات میں سے ایک ہے جس کی کمی ہماری صحت کے لیے کئی مسائل پیدا کردیتی ہے۔ بہت سے لوگ اس طرف توجہ نہیں دیتے اور صرف اسی وقت پانی پیتے ہیں جب انہیں پیاس لگتی ہے جو ایک غلط رویہ ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے جسم کو روزانہ تقریباً 2 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر آپ پابندی سے ورزش یا روزمرہ جسمانی مشقت کرتے ہیں تو آپ کو اس سے بھی زیادہ مقدار میں ہر روز پانی پینا چاہیے۔

کیفین میں کمی:
چائے اور کافی آج ہمارے روزمرہ مشروبات کا حصہ بن چکی ہیں اور لوگوں کی اکثریت ان کی عادی بھی ہے۔ چائے اور کافی میں ’’کیفین‘‘ شامل ہوتی ہے جو جسم میں چستی اور پھرتی پیدا کرتی ہے۔ وہ لوگ جو روزانہ چائے یا کافی پینے کے عادی ہوتے ہیں، اگر وہ ان کی مقدار میں کمی کردیں یا انہیں بالکل ہی ترک کردیں تو انہیں بھی (کیفین میں کمی وجہ سے) سر میں درد کی شکایت ہوسکتی ہے۔

دھوپ کی زیادتی:
سردیوں کی دھوپ اچھی لگتی ہے جس سے ہم خود کو ہشاش بشاش بھی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن گرم اور معتدل موسم میں زیادہ دیر تک دھوپ میں رہنے سے جسم میں پانی کی کمی کے علاوہ سورج کی گرمی سے بھی سر میں درد ہوسکتا ہے۔

ہوا کے دباؤ میں تبدیلی:
موسم اور ماحول بدلنے کے ساتھ بعض مرتبہ ہوا کے دباؤ میں بھی تبدیلی آجاتی ہے جس کا نتیجہ سر میں درد کے طور پر ظاہر ہوسکتا ہے۔ اگرچہ یہ شکایت بہت کم لوگوں کو کبھی کبھار ہوتی ہے لیکن دردِ سر کی ایک وجہ بہرحال یہ بھی ہے۔

نشست و برخاست کا غلط انداز:
کام کے دوران اکثر لوگ اس طرح سے بیٹھتے ہیں کہ ان کی گردن اور کمر پر زیادہ زور پڑتا ہے جس کے زیادہ دیر تک برقرار رہنے کی صورت میں ہڈیوں اور پٹھوں میں اینٹھن شروع ہوجاتی ہے۔ لیکن نشست و برخاست کا یہی انداز (پوسچر) درست نہ ہونے پر سر میں بھی درد ہوجاتا ہے کیونکہ ریڑھ کی ہڈی سے اٹھنے والا درد کا احساس دماغ تک پہنچتا ہے اور سر میں درد کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

گھریلو اور کاروباری تناؤ:
گھریلو اور کاروباری مسائل کی وجہ سے ہمارے اعصاب دیر تک تناؤ کا شکار بھی رہ سکتے ہیں اور یہی تناؤ سر میں درد کی شدید لہر پیدا کرسکتا ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ کسی بھی طرح کے اعصابی تناؤ سے خود کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھیں کیونکہ اگر اس طرف توجہ نہ دی جائے تو یہی اعصابی تناؤ دردِ سر سے آگے بڑھ کر بہت سی بیماریوں کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

دواؤں کے ضمنی اثرات:
شاید ہی کوئی دوا ایسی ہو جس کے ضمنی اثرات نہ ہوں۔ البتہ جب ہم کوئی دوا پہلی بار کھاتے ہیں تو ہمارا جسم اس کا عادی ہونے سے پہلے کچھ نامانوسیت کا مظاہرہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں دردِ سر ہوسکتا ہے۔ تاہم اگر کوئی دوا کھانے کے بعد خاصی دیر تک سر میں درد رہے تو ڈاکٹر کو دکھانا ضروری ہے۔

خون میں شوگر کی کمی:
شکر ہمارے جسم میں توانائی کا اہم ترین ذریعہ بھی ہے جو صرف مٹھاس والی غذاؤں ہی میں نہیں بلکہ نمکین کھانوں تک میں موجود ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر خون میں شکر کم ہوجائے تو کمزوری کے علاوہ سر میں درد کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں فوری طور پر کچھ کھا لینا چاہیے ورنہ یہ کیفیت بڑھ کر اذیت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں میں بھی بعض اوقات انسولین لینے کے بعد وقتی طور پر خون میں شوگر کم ہوجاتی ہے جس سے یہی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔

ہارمون کے توازن میں خرابی:
مخصوص دنوں اور بلوغت کے علاوہ عمر رسیدگی کے دوران بھی خواتین میں ہارمون کا توازن بگڑ جاتا ہے جس کے نتیجے میں انہیں موڈ کی خرابی سے لے کر سر میں شدید درد جیسی شکایات ہوسکتی ہے۔ اس موقعے پر بہتر ہے کہ کسی اچھی لیڈی ڈاکٹر کو دکھالیا جائے۔

غذائی الرجی:
بعض لوگوں کو کسی خاص قسم کی غذا سے الرجی ہوتی ہے مثلاً مرغی، انڈا، مچھلی اور دودھ وغیرہ سے؛ اور اسی الرجی کے باعث جہاں انہیں جلد پر خارش اور بیماری لاحق ہوسکتی ہے وہیں ان کے سر میں بھی درد کی شدید ٹیسیں پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ صورتِ حال بھی فوری طور پر ڈاکٹری معائنے کا تقاضا کرتی ہے۔

تیزی سے اٹھنا:
بستر یا کرسی چھوڑ کر تیزی سے کھڑے ہونے کا نتیجہ بھی دردِ سر اور تیز چکر کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے سر میں خون کا بہاؤ چند لمحوں کے لیے متاثر ہوجاتا ہے۔ البتہ یہ کیفیت کچھ دیر سر کی طرف خون کا بہاؤ نارمل ہوتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔