Showing posts with label Cancer. Show all posts

ہر موسم میں پیاز کا استعمال کریں اور صحت مند رہیں۔ ہمیشہ

پیاز ہمارے کھانوں میں لازمی جزو کا درجہ رکھتی ہے لیکن عمومی صحت کے معاملے میں اس کے بہت سے فائدے بھی ہیں جن سے عام طور پر ہم واقف ہی نہیں یا پھر انہیں سرے سے نظرانداز کرجاتے ہیں۔ ایسے ہی صرف چند فائدے یہاں پیش کئے جارہے ہیں:


پیاز میں وٹامن سی کے علاوہ ایسے قدرتی کیمیکلز بھی شامل ہوتے ہیں جو بیماریوں کے خلاف ہمارے جسم کے دفاعی نظام یعنی امیون سسٹم کو مضبوط بناتے ہیں۔

کرمیم کہلانے والی ایک قدرتی دھات بھی پیاز میں موجود ہوتی ہے جس کی بدولت خون میں شکر کی مقدار قابو رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

زخموں میں جلن کم کرنے اور ایڑیوں کی تکلیف سے چھٹکارا پانے میں بھی پیاز کی افادیت صدیوں سے تسلیم شدہ ہے۔

اگر پیاز کو پکائے بغیر، خام حالت میں کھایا جائے تو یہ جسم کو نقصان پہنچانے والے کولیسٹرول یعنی ’’ایل ڈی ایل‘‘ کو بننے سے روکتی ہے اور آپ کو بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں سے محفوظ کرنے میں بھی مدد کرتی ہے۔

پیاز میں ایسے مرکبات کا انکشاف بھی ہوا ہے جو کینسر سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اگر شہد کی مکھی کاٹ لے تو متاثرہ جگہ پر پیاز کا رس لگانے سے درد کی شدت میں بہت کمی واقع ہوجاتی ہے۔

اسی طرح اگر ہم ’’فری ریڈیکلز‘‘ کی بات کریں جو عمر رسیدگی سمیت درجنوں بیماریوں کی جڑ بھی کہلاتے ہیں، تو پیاز ان کی بھی دشمن ہے اور یہ خاص طور پر معدے کے السر سے بھی بچاتی ہے۔

کچی پیاز/ ہری پیاز کا سبز بالائی حصہ وٹامن اے سے بھرپور ہوتا ہے جسے روزانہ تھوڑی سی مقدار میں کھانے سے ہڈیوں کی نشوونما بہتر ہوتی ہے، بیماریوں سے تحفظ ملتا ہے، تولیدی صلاحیت بہتر ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ نظر بھی تیز ہوتی ہے۔

پیاز ہر موسم میں دستیاب ہوتی ہے البتہ اتنا مشورہ ضرور دیں گے کہ صحت سے متعلق پیاز کے اتنے فوائد پڑھنے کے بعد آپ پیاز کا حد سے زیادہ استعمال شروع نہ کردیجئے گا کیونکہ یہ چیز فائدے کے بجائے نقصان کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔ اس کے بجائے بہتر ہوگا کہ اپنے روزمرہ کھانوں میں پیاز کو مناسب مقدار میں شامل رکھئے۔

ایسی 6 گھریلو چیزیں جو کینسر کی وجہ بھی بن سکتی ہیں

ہر انسان فطری طور پر اپنے گھر کو دنیا کی سب سے پیاری اور محفوظ ترین جگہ سمجھتا ہے لیکن اسی گھر میں کینسر (سرطان) کی وجہ بننے والی چیزیں بھی موجود ہوسکتی ہیں۔ گھریلو استعمال کی ان اشیاء میں ایسے مرکبات ہوتے ہیں جن سے بار بار اور زیادہ سامنے ہونے کے نتیجے میں سرطان جیسی خطرناک اور جان لیوا بیماری بھی لاحق ہوسکتی ہے کیونکہ ان میں نائٹروبنزین، فارم ایلڈی ہائیڈ اور میتھائلین کلورائیڈ جیسے خطرناک مادّے شامل ہوتے ہیں۔
یہ مادّے پلاسٹک اور ربر سے بنے عام گھریلو سامان کے علاوہ مصنوعی خوشبوؤں تک میں پوشیدہ ہوسکتے ہیں۔ یہ تحریر ایسی ہی چند گھریلو اشیاء کے بارے میں ہے تاکہ آپ محتاط رہ سکیں۔


خوشبودار موم بتیاں:
مہنگی اور بلند معیار والی موم بتیوں میں (خاص طور پر وہ جنہیں جلانے پر کمرے میں خوشبو پھیل جاتی ہے) شعلہ جلائے رکھنے کے لیے درمیان میں موٹے دھاگے کی جگہ سیسے والی باریک ڈور استعمال کی جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت بازار میں دستیاب 40 فیصد خوشبودار موم بتیوں میں سیسے کی ڈور استعمال کی جاتی ہے۔ اور سیسے کی ڈور والی موم بتی سے فضا میں جتنا سیسہ خارج ہوتا ہے اس سے بچوں کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ شدید طور پر بڑھ جاتا ہے۔ فضا میں سیسے کی آلودگی سے متعلق ماحولیاتی تحفظ کی عالمی تنظیم (ای پی اے) نے جو معیارات مقرر کر رکھے ہیں ان کے مطابق سیسے کی ڈور والی موم بتیوں سے فضا میں خارج ہونے والا سیسہ بچوں کے لیے محفوظ حد سے 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن سیسے کی تباہ کاریاں صرف کینسر تک ہی محدود نہیں کیونکہ اس کی زیادہ مقدار جسم میں پہنچ جانے کا نتیجہ ہارمونوں کے متاثر ہونے، نئی چیزیں سیکھنے میں معذوری اور عادت/ مزاج سے متعلق کئی مسائل کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی اگر آپ کو اپنی اور اپنے بچوں کی صحت عزیز ہے تو خوشبودار موم بتیوں کو پہلی فرصت میں گھر سے نکال باہر کریں اور سوتی ڈور والی موم بتیاں ہی استعمال کریں۔

ایئر فریشنر:
ہوا میں بدبو ختم کرنے اور ماحول خوشگوار بنانے کے لیے ایئر فریشنر کا استعمال بھی ہمارے یہاں گھروں میں عام ہوتا جارہا ہے لیکن ان ہی ایئر فریشنرز میں ایسے طیران پذیر نامیاتی مرکبات (وولاٹائل آرگینک کمپاؤنڈز) ہوتے ہیں جو کینسر کی وجہ بن سکتے ہیں۔ گھروں میں زیادہ استعمال ہونے والے 13 ایئر فریشنرز پر کی گئی ایک تحقیق سے پتا چلا کہ بیشتر ایئر فریشنرز میں تولیدی نظام کو متاثر کرنے اور دمہ پیدا کرنے والے مرکبات موجود ہوتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایئر فریشنرز کی بڑی تعداد میں نہ صرف خطرناک، زہریلے اور کینسر کی وجہ بننے والے مرکبات ہوتے ہیں بلکہ ان کا اندراج ایئر فریشنر کے ڈبے پر موجود اجزاء کی فہرست میں بھی نہیں کیا جاتا۔ یقیناً یہ بات تشویشناک ہے اس لئے بہتر ہے کہ خوشبو کے لیے قدرتی عطر استعمال کیے جائیں جو محفوظ بھی رہتے ہیں۔

آرائشی سامان:
ربر سیمنٹ گوند، مستقل مارکر، ایکرائلک پینٹس اور اس طرح کی دوسری اشیاء جن کا تعلق آرائشی سامان یا ’’آرٹ‘‘ سے ہے وہ الرجی پیدا کرنے اور مختلف جسمانی اعضاء کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کینسر کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔ خاص طور پر بچوں کو ان مصنوعی چیزوں سے بہت خطرہ ہوتا ہے کیونکہ ان کا قدرتی دفاعی نظام اتنا مضبوط نہیں ہوتا کہ ان کے مضر اثرات کا سامنا کرسکے۔

بدبو بھگانے والی مصنوعات:
پسینے سے اٹھنے والی بدبو ختم کرنے اور جسم کو خوشبودار بنانے کے لیے ’’ڈیوڈورینٹ‘‘ کہلانے والی مصنوعات گھروں میں بکثرت استعمال کی جاتی ہیں لیکن صحت کے معاملے میں ان کی شہرت بہت خراب ہے کیونکہ ان میں مختلف الاقسام سرطانوں (کینسرز) کی وجہ بننے والے مرکبات شامل ہوتے ہیں۔ یہ لمبے عرصے تک ہماری جلد پر موجود رہتے ہیں اور ان میں شامل مضر مرکبات نہ صرف جلد پر بلکہ جلد میں جذب ہوکر اندر تک پہنچ جاتے ہیں اور کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔

شیمپو:
بات کچھ عجیب سی لگتی ہے لیکن شمپوؤں میں بھی زہریلے مرکبات شامل ہونے کی خبریں عرصہ دراز سے گردش میں ہیں۔ ان پر ابھی سائنسی مطالعات جاری ہیں لیکن ہمارا مشورہ تو یہی ہے کہ بعد کے پچھتاوے سے بہتر آج کی احتیاط ہے۔

شاور کے پردے:
پلاسٹک سے بنے ہوئے نیم شفاف پردے جنہیں نہاتے دوران کھینچ دیا جاتا ہے، ان میں بھی ایئر فریشنر کی طرح طیران پذیر نامیاتی مرکبات (وی او سیز) شامل ہوتے ہیں۔ یہ صرف غسل خانے ہی میں نہیں بلکہ ارد گرد ماحول میں بھی انتہائی معمولی مقداروں میں خارج ہوکر سرطان سمیت کئی بیماریوں کی وجہ بن سکتے ہیں۔

ادرک کے جُوس کے 7 ایسے فائدے کہ جنہیں پڑھ کر آپ ادرک کا جُوس کبھی نہ چھوڑیں گے۔

مصالحہ جات میں ادرک سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے اور ایشیائی ممالک میں یہ بہت مقبول ہے۔ اسے کھانوں کو کرارا بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ اس سے بنائے گئے جوس کو صحت کے لئے بہت مفید سمجھا جاتا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ صبح اٹھنے کے بعد اس کا جوس پئیں کہ اس طرح انشاء اللہ آپ کو کئی فوائد حاصل ہوں گے۔


مدافعتی نظام
اگر آپ بخار، زکام اور نزلے سے پریشان ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا مدافعتی نظام کمزور ہورہا ہے لہذا اسے طاقتور کرنے کی ضرورت ہے۔ صبح سویرے ادرک کا جوس پینے سے نہ صرف آپ کا مدافعتی نظام مضبوط ہوگا بلکہ آپ کا خون کا نظام بہتر ہوگا۔

کینسر سے بچاﺅ
کئی تحقیقات میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ادرک کی وجہ سے کینسر سے انسان بچ سکتا ہے، بالخصوص خواتین میں یہ اووریز کے کینسر کے امکانات کو کم کرتا ہے۔

آنتوں کے مسائل
اگر آپ کو آنتوں میں سوزش یا تکلیف ہو تو آپ کو چاہیے کہ ادرک والی چائے یا جوس کا استعمال کریں۔اس کی وجہ سے آپ کو انتڑیوں میں کافی سکون محسوس ہوگا۔

الزائمرز کے لئے
اس بیماری میں دماغی خلیوں کی موت ہونے لگتی ہے اور اگر آپ ادرک کا استعمال کریں گے تو یہ عمل سست ہوجائے گا۔

بھوک بڑھانے کے لئے
اگر آپ کو بھوک نہیں لگتی تو یہ معدے کی خرابی کی نشانی ہے اور اس کی وجہ سے آپ دیگر بیماریوں کا بھی شکار ہوسکتے ہیں لہذا ادرک کا جوس پینے سے اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے آپ کے جسم کی فاضل چربی بھی پگھل جائے گی۔

تھکاوٹ کے لئے
اگر آپ مشقت والا کام کرتے ہیں اور تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں تو ادرک کا جوس پینے سے آپ کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس کی وجہ سے آپ کے پٹھے مضبوط ہوں گے اور آپ تھکاوٹ سے بچے رہیں گے۔

گلوکوز لیول کے لئے
آسٹریلیا میں کی گئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے خون میں ہائی شوگر لیول کو کم کیاجاسکتا ہے۔ہمارے جسم میں شوگر لیول کو کنٹرول میں رکھنا بہت ضروری ہے جس کی وجہ ماہرین صحت یہ بتاتے ہیں کہ اس کی سے ہمارا وزن کنٹرول میں رہتا ہے۔

ہلدی کینسر کے خاتمے میں مددگار ہے، تحقیق

آپ کے باورچی خانے میں رکھا ایک مصالحہ دنیا کی بہترین دوا ہے جسے ہلدی کہتے ہیں کیونکہ اس میں موجود جادوئی اجزا سینے کی جلن سے لے کر زہرخورانی (فوڈ پوائزننگ) تک کا علاج ہیں۔


ہلدی میں موجود بعض اجزا کئی طرح کے کینسر کو قبل از وقت روک سکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں ہلدی کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے لیکن اب ماہرین نے چوہوں پر تجربات کیے اور انہیں معمول سے زیادہ ہلدی کھلائی۔ امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ چوہوں پر کیے گئے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ ہلدی میں موجود ایک عنصر ’’سرکیومن‘‘ چوہیا میں بریسٹ کینسر پھیلنے میں اہم رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔ ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دماغ میں الزائیمر کی وجہ بننے والے اجزا کو بھی ہلدی ختم کرنے میں جادوئی کردار ادا کرتی ہے۔ اسی بنیاد پر ماہرین کھانے میں ہلدی کی زیادہ مقدار پر زور دے رہے ہیں۔

یونیورسٹی کالج لندن میں ایک اور دلچسپ تجربہ کیا گیا جس میں دیکھا گیا کہ آیا ہلدی ہمارے جین کو تبدیل کرسکتی ہے یا نہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ جینیاتی تبدیلیاں بہت سارے امراض کی وجہ بنتی ہیں۔ اس ٹیسٹ میں جین کے اطراف موجود بعض اجزا کو نوٹ کرنا تھا۔ وومن کینسر انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدان کے مطابق اسے جین کا پیکج کہا جاسکتا ہے جو کسی سافٹ ویئر کی طرح جین کو کہتا ہے کہ اسے کیا کام کرنا ہے اور کیا نہیں۔ اسے جینیاتی زبان میں میتھائلیشن کہتے ہیں اور اس کی ہدایات بیماری بھی پیدا کرسکتی ہیں۔

اس کے لیے 40 سے 50 سال تک کے 100 رضاکار بھرتی کیے گئے اور انہیں 3 گروہوں میں تقسیم کیا۔ ایک گروپ کو ہلدی کے کیپسول دیئے گئے جس میں 3.2 ملی گرام ہلدی، ایک گروہ کو فرضی کیپسول اور تیسرے کو ایک چمچہ ہلدی دی گئی اور وہ بھی روزانہ 6 ہفتے تک کھلائی گئی۔ اس کے بعد ان کے خون کے ٹیسٹ لیے گئے تو ماہرین یہ جان کر حیران رہ گئے کہ تمام افراد کے خون میں امنیاتی خلیات پہلے کے مقابلے میں تھوڑے کم تھے۔

لیکن اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہوئی کہ دمے، ڈپریش، الرجی، کینسر اور دیگر امراض کی وجہ بننے والے جین میں تبدیلیاں دیکھی گئیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ہلدی بیماریوں کی وجہ بننے والے جین کو بھی تبدیل کرسکتا ہے۔ اس طرح اب ہلدی میں پہلی بار جین تبدیل کرنے والے خواص دریافت ہوئے ہیں۔

وٹامن ڈی کی کمی ذیابیطس سمیت کئی اقسام کے کینسر کی وجہ بن سکتی ہے

ماہرین صحت کا کہنا ہےکہ وٹامن ڈی کے بہت سے فائدے ہیں لیکن اس کی کمی خصوصاً خواتین میں تھکاوٹ اور اداسی کی وجہ بن سکتی ہے اور اس سے ذیابیطس، گٹھیا سمیت کئی اقسام کے کینسر بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔

ایڈنبرا یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق وٹامن ڈی بلڈ پریشر کو بھی قابو میں رکھنے پر مدد دیتا ہے، سائنسدانوں نے اس سے متعلق تحقیق کے لیے چند مرد و خواتین کو 20 منٹ تک سائیکل چلانے کا کہا اور اس سے قبل ایک گروپ کو بتائے بغیر وٹامن ڈی کی گولیاں یا بغیر دوا کی گولی ( پلیسیبو) دی گئیں۔ اس کے دو ہفتے بعد دوبارہ اس گروپ کو 20 منٹ تک سائیکل چلانے کو کہا گیا، جن افراد نے وٹامن ڈی کی گولیاں لی تھیں وہ زیادہ دیر تک سائیکل چلاتے رہے اور انہیں کوشش بھی کم کرنا پڑی لیکن اس کے علاوہ ان لوگوں کے جسم میں ایک ہارمون کارٹیسول کم پایا گیا جو بلڈ پریشر میں اضافے کی وجہ بنتا ہے اور امراضِ قلب بھی پیدا کرسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق سورج کی روشنی کی مدد سے ہمارا جسم وٹامن ڈی تیار کرتا ہے اور ماہرین کا اصرار ہے کہ روزانہ کم ازکم 20 منٹ دھوپ میں چہل قدمی کی جائے تاکہ سورج کی روشنی بدن میں جذب ہوکر وٹامن ڈی تیار کرسکے۔ کوئن مارگریٹ یونیورسٹی کے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی سے ذیابیطس، گٹھیا اور کئی اقسام کے کینسر پیدا ہوسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہےکہ وٹامن ڈی مشروم، انڈوں اور مچھلیوں میں وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے لیکن بہتر ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی کا خون ٹیسٹ کرالیا جائے اور اس کے بعد ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کیا جائے۔


زیتون کا تیل کینسر کی بیماری کا بہترین علاج ہے، تحقیق

نیویارک: دل کی بیماریوں میں کارآمد اور انسانی جسم کو موٹاپے سے اسمارٹ کردینے والے زیتون کے تیل کی ایک نئی خوبی سامنے آگئی ہے جس میں اسے کینسر کی بیماری کے خاتمے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جب کہ اس سے کسی قسم کے سائیڈ ایفکٹس کا بھی کوئی خطرہ نہیں۔
امریکی یونیورسٹی پال پریسلن اور ہنٹر کالج کے پروفیسرز پال بریسلن، ڈیوڈ فوسٹر اور اولیکا لی جینڈر نے تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ زیتون کے تیل میں پایا جانے والا عنصر ’اولیوکینتھل‘ تیزی سے منتخب کردہ کینسر سیل کو ’لی سوسو مال میمبرین پرمییبی لائیزینش‘ (ایل ایم پی) پروسیس کے ذریعے 30 منٹ میں مار دیتا ہے جب کہ اس سے کوئی سائیڈ ایفکٹس بھی نمودار نہیں ہوتے۔

سائنس دانوں نے زیتون کے تیل کے اس حیران کن فائدے کو جاننے کے لیے تیل میں موجود اینٹی آکسی ڈینٹ عنصر اولیو کینتھل کو زندہ کینسر سیل پر استعمال کیا جس سے کینسر سیل موت کا شکار ہوگئے بالکل اسی طرح جس طرح کیمو تھراپی کو کینسر سیل مارنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تحقیق کرنے والی ٹیم کے ممبر لی جینڈر کاکہنا ہے کہ اولیوکینتھل خلوی عنصر لی سوس میس کا سیل کے اندر پھٹنے کا باعث بنتا ہے اور سیل میں موجود انزائم کینسر سیل کی موت کا باعث بنتا ہے بلکہ اسے سیل کی خود کشی کہا جا سکتا ہے۔

تحقیق میں کہا گیا ہے کہ زیتون کے تیل سے کینسر کے خلاف مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ادھر کسی نے زیتون کا تیل پیا اور کینسر سیل مرنا شروع ہوگئے۔ محقین کا کہنا ہےکہ یہ بات تو واضح ہوگئی کہ زیتون کے تیل میں موجود اولیو کینتھل کینسر دشمن ہے جب کہ دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ کیمو تھراپی کی طرح اس کے منفی اثرات جسم پر ظاہر نہیں ہوتے۔ کیمو تھراپی میں مریض سستی، متلی، بالوں کا گرنا اور بھوک کا ختم ہوجانا جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے لیکن زیتون کے تیل سے اس طرح کا کوئی بھی سائیڈ ایفکٹس سامنے نہیں آیا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تمام زیتون کے تیل ایک جیسی خصوصیات نہیں رکھتے تاہم ایکسٹرا ورجین زیتون کے تیل میں بڑی مقدار میں اینٹی آکسی ڈینٹ عنصر موجود ہوتا ہے کیوں کہ اسے فلٹریشن کے عمل سے نہیں گزارا جاتا جب کہ صرف ورجین آئل چونکہ صفائی اور فلٹریشن کے عمل سے گزرتا ہے اس لیے اس میں اینٹی آکسی ڈینٹ عناصر انتہائی کم ہو جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ زیتون کے درخت 3000 ہزار سال تک زندہ رہ سکتا ہے جبکہ اس کی کاشت کا آغاز 6000 ہزار سال قبل ہوا تھا اور جب سے زیتون کا تیل بحیرہ روم کے لوگ کی غذاؤں کا حصہ ہے۔

کینسر کی وہ علامات جن پر توجہ دی جائے تو بڑے نقصان سے بچا جا سکتاہے

لندن(نیوزڈیسک)کینسر ایک موذی مرض ہے ،کچھ لوگوں میں اس کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب اس کا علاج ممکن نہیں رہتا۔ برطانوی ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اگر کینسر کی ابتدائی علامات پر ہی توجہ دی جائے تو آنے والے بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔برطانیہ میں کیے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ کینسر کے شکار لوگوں میں نصف نے ابتدائی علامات کو خاص اہمیت نہ دی،ڈاکٹروں سے رابطہ نہ کیا اور انہوں نے آنے والے دنوں میں بڑا نقصان کا سامنا نہ کیا۔آئیے آپ کو کینسر کی ابتدائی علامات بتاتے ہیں۔

  • اگر آپ کو مستقل کھانسی لاحق ہوجائے تو فوراًڈاکٹر سے ملیں کیونکہ یہ پھیپھڑوں کے کینسر کی ابتدائی علامت ہوسکتی ہے۔
  • اگر آپ کے تل یا موہکے کے بننے میں تبدیلی ظاہر ہو تو یہ جلد کے سرطان کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔
  • آنت کے رویے میں غیر معمولی تبدیلی آنت کے کینسر کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔
  • اگر آپ کے منہ کے چھالے مستقل رہیں اور ٹھیک نہ ہوں تو یہ منہ کے سرطان کی ممکنہ علامت ہے۔
  • اگر آپ کو کوئی چیز کھاتے ہوئے نگلنے میں مشکل ہواور یہ علامت جاری رہے تو یہ گلے کے کینسر کی وجہ ہوسکتی ہے۔
  • اگر آپ کا وزن بغیر کسی وجہ کے کم ہورہا ہے تو ممکن ہے کہ یہ مختلف طرح کے کینسر زکی ابتدائی علامت ہے۔
  • اگر آپ کے مثانے میں کوئی غیر معمولی تبدیلی آرہی ہے اور آ پ کو پیشاب کرنے میں دشواری ہے تو یہ مثانے اورپروسٹیٹ کینسر کی علامت ہو سکتی ہے۔
  • جسم کے کسی حصہ میں مستقل درد بھی کینسر کی ممکنہ علامت ہے
  • بغیر کسی ظاہری وجہ کے خون کا مسلسل رسنا مختلف طرح کے کینسرز مثلاًآنت وغیرہ کی ابتدائی علامت ہے۔
  • بغیر کسی جہ کے جلد پر سرخ نشانات بننا بھی سرطان کی علامت میں شمار کی جاتی ہے۔
ضروری نہیں کہ اوپر بیان کی گئی باتوں میں کسی ایک میں مبتلا ہونے کے بعد آپ کینسر کا شکار ہیں لیکن پھر بھی معالج سے مشورہ کرنا بہتر ہے تاکہ بڑے نقصان سے بچا جاسکے۔