انسانی آنکھ کے بارے حیرت انگیز معلومات

Advertisement
اللہ تعالی نے انسان کو ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے۔ اگر ہم ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیں تو درحقیقت ہم اللہ کریم کی ایک نعمت کا بھی شکر ادا نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالی کی ان گنت نعمتوں میں سے ایک نعمت آنکھ کا تذکرہ اپنے دوستوں سے کرتے ہیں۔ جن کی آنکھیں نہیں ان سے ذرا پوچھ کردیکھیں کہ آنکھوں کی قدر کیا ہوتی ہے۔ اس آنکھ کے اندر ایسا پچیدہ نظام کارفرما ہے کہ جس کا ادراک کرکے انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

جب آپ کچھ لمحوں کے لیے ایک قلم کو اپنے ہاتھ میں دیکھتے ہیں کروڑوں اربوں قسم کے مختلف عمل آنکھ میں وقوع پذیر ہوتےہیں۔ روشنی قرنیہ اور پیوپل سے گزرتی ہے اور عدسہ تک پہنچتی ہے جہاں پر روشنی کے حساس خلیے اسے برقی حراروں میں تبدیل کرتے ہیں اور اعصابی نظام تک انکی ترسیل ہوتی ہے۔ پردہ چشم تک پہنچنے والی تصویر بلکل الٹی اور اوندھی ہو جاتی ہے تاہم دماغ اسے سمجھ سکتا ہے ، دونوں آنکھوں سے علیحدہ علیحدو تصویروں کو جمع کرکے، اس شے کے نقوش کی شناخت کرکے اور دونوں آنکھوں سے لی گئی تصاویر کو ملا کر ایک تصویر بناتا ہےاور ایک بلکل ٹھیک حالت میں تصویر کو پیش کرتا ہے ۔یہ اس شے کی ساخت، رنگ اور فاصلے کا بھی تعین کرتا ہے۔ آنکھیں یہ سب ایک سیکنڈ کے دسویں حصہ میں کرتی ہیں۔

ایسا ہی عمل دماغ میں بھی ہوتا ہے چاہے آپ کوئی چھوٹا سا نقطہ دیکھیں یا ایک بڑا جہاز دیکھیں نتیجتا بننے والی تصویر صرف ایک ملی میٹر کے حصہ میں ہوتی ہے۔ آپ کبھی بھی اس بات کا یقین نہیں کر سکتے کہ آپ کے ہاتھ میں موجود قلم آپ سے کتنا قریب ہے یا ایک میل دور کھڑا بحری جہاز ایک پینسل سے بڑا ہے کیونکہ دماغ کے جس حصہ میں یہ تصاویر بنتی ہیں اسکا رقبہ سب کے لیے برابر ہے۔ تاہم جس چیز کو بھی آپ دیکھتے ہیں وہاں ایک فاصلہ کو محسوس کرنے کی حس موجود ہے ورنہ آپ کسطرح آسانی کے ساتھ ہاتھ بڑھا کر گلاس کو اٹھائینگے؟ اللہ جس نے یہ بے عیب عضو تخلیق کیا ہے، اسے ایک ناقبل تصور لطیف جزئیات سے آراستہ کیا ہے اور دماغ کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ کسی چیز کو بھی اسکی مکمل تفصیلات کے ساتھ دیکھ سکے جہاں وہ ہے۔ یہ غیر معمولی پیچدہ انسانی آنکھ بھی اس ذات پاک کے عظیم کاموں میں سے صرف ایک عمل ہے۔

کوئی انسانی صنعت یہ کارنامہ نہیں پیدا کرسکتی۔ یہ سمجھنے کے لیے مستقل تحقیق ہورہی ہے کہ کسطر ح آنکھ یہ حیرت انگیز کام انجام دے سکتی ہے اور سائنسدان یہ معلوم کرنے کی جدوجہد میں ہیں کہ کس طر ح یہ ہمیں رنگین دنیا کا نظارہ کراتی ہیں۔ بے شک نا تو آنکھیں، جو کہ رقبہ میں کچھ سینٹی میٹر کے برابر ہیں اور نہ ہی دماغ کا وہ ملی میٹر سائز کا حصہ جہاں تصویر بنتی ہے، یہ رنگین دنیا بنانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ روح ہے جو باہر پائی جانے والی اشیاء کو دیکھتی ہے اور دماغ کے اندر اسکوواضح کرتی ہے۔ اللہ جو قادر مطلق ہے انسان کی پیدائش کے وقت اپنی روح پھونک کر ، اس نے لوگوں کو دیکھنے کے، ادارک کرنے اور محسوس کرنے کے قابل بنایا اور چیزوں کو انسان کے لیے مسخّر کردیا۔ تصوریر جو بنتی ہے اور حیرت انگیز آنکھیں جو اسکا ادراک کرتی ہیں اور ان گنت نظام جو اس تمام کام میں شامل ہے صرف اس لیے کہ اللہ نے ایسا چاہا۔

تو تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔

آج ہم اپنے موبائل کا کیمرہ میگا پکسل دیکھ کر خریدتے ہیں۔ 13 میگا پکسل کیمرے والا موبائل تقریبا ساری ہی پسند کرتے ہوں گے۔ اور اگر اس میں سونی کمپنی یا کارل زائس کمپنی کا لنز لگا ہوتو اس کو ہر کوئی پسند کرے گا۔ لیکن آپ کو شائد یہ بھی جان کر حیرت ہوگی کہ انسانی آنکھ کا عدسہ 576 میگا پکسل کے برابر ہوتا ہے۔

تو تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔