ہر موسم میں پیاز کا استعمال کریں اور صحت مند رہیں۔ ہمیشہ

پیاز ہمارے کھانوں میں لازمی جزو کا درجہ رکھتی ہے لیکن عمومی صحت کے معاملے میں اس کے بہت سے فائدے بھی ہیں جن سے عام طور پر ہم واقف ہی نہیں یا پھر انہیں سرے سے نظرانداز کرجاتے ہیں۔ ایسے ہی صرف چند فائدے یہاں پیش کئے جارہے ہیں:


پیاز میں وٹامن سی کے علاوہ ایسے قدرتی کیمیکلز بھی شامل ہوتے ہیں جو بیماریوں کے خلاف ہمارے جسم کے دفاعی نظام یعنی امیون سسٹم کو مضبوط بناتے ہیں۔

کرمیم کہلانے والی ایک قدرتی دھات بھی پیاز میں موجود ہوتی ہے جس کی بدولت خون میں شکر کی مقدار قابو رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

زخموں میں جلن کم کرنے اور ایڑیوں کی تکلیف سے چھٹکارا پانے میں بھی پیاز کی افادیت صدیوں سے تسلیم شدہ ہے۔

اگر پیاز کو پکائے بغیر، خام حالت میں کھایا جائے تو یہ جسم کو نقصان پہنچانے والے کولیسٹرول یعنی ’’ایل ڈی ایل‘‘ کو بننے سے روکتی ہے اور آپ کو بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں سے محفوظ کرنے میں بھی مدد کرتی ہے۔

پیاز میں ایسے مرکبات کا انکشاف بھی ہوا ہے جو کینسر سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اگر شہد کی مکھی کاٹ لے تو متاثرہ جگہ پر پیاز کا رس لگانے سے درد کی شدت میں بہت کمی واقع ہوجاتی ہے۔

اسی طرح اگر ہم ’’فری ریڈیکلز‘‘ کی بات کریں جو عمر رسیدگی سمیت درجنوں بیماریوں کی جڑ بھی کہلاتے ہیں، تو پیاز ان کی بھی دشمن ہے اور یہ خاص طور پر معدے کے السر سے بھی بچاتی ہے۔

کچی پیاز/ ہری پیاز کا سبز بالائی حصہ وٹامن اے سے بھرپور ہوتا ہے جسے روزانہ تھوڑی سی مقدار میں کھانے سے ہڈیوں کی نشوونما بہتر ہوتی ہے، بیماریوں سے تحفظ ملتا ہے، تولیدی صلاحیت بہتر ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ نظر بھی تیز ہوتی ہے۔

پیاز ہر موسم میں دستیاب ہوتی ہے البتہ اتنا مشورہ ضرور دیں گے کہ صحت سے متعلق پیاز کے اتنے فوائد پڑھنے کے بعد آپ پیاز کا حد سے زیادہ استعمال شروع نہ کردیجئے گا کیونکہ یہ چیز فائدے کے بجائے نقصان کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔ اس کے بجائے بہتر ہوگا کہ اپنے روزمرہ کھانوں میں پیاز کو مناسب مقدار میں شامل رکھئے۔

ایسا کیا کیا جائے کہ گیس سے چھٹکارا مل جائے؟

مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا، مسئلہ تو مسئلہ ہے، اور اگر یہ مسئلہ ہمارے معدے یا پیٹ سے متعلق ہو تو پھر تو یہ وبالِ جان ہے۔ گیس کا مسئلہ بہت عام مگر گھمبیر قسم کا مسئلہ ہے۔ سردرد، جسم کا کھنچنا، پیٹ میں مڑوڑ اور سینے میں درد، یہ سب گیس کے ہی چیدہ چیدہ تحفے ہیں۔ اب ایسا کیا کیا جائے کہ گیس سے چھٹکارا مل جائے؟


بس کچھ احتیاطی تدابیر اور کچھ گھریلو نسخے آپکی تکلیف میں چند منٹوں سے چند دنوں تک میں افاقہ دلا سکتے ہیں، اپنے کھانے پینے کی روٹین اور معیارِ زندگی بہتر بنا کر اس تکلیف سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ ذیل میں چند گھریلو نسخے پیش کئے جا رہے ہیں، جن سے امید ہے کہ آپ کو اس مرض سے کافی افاقہ حاصل ہو جائے گا۔ انشاء اللہ۔

دیسی گھریلو نسخے:
⭐ باقاعدگی سے واک کرنا گیس کے مرض میں کمی کرتا ہے، روزانہ کم از کم 20 منٹ کی واک کریں۔
⭐ بھوک رکھ کر کھانا کھائیں، نیز کھانا تیز تیز نہ کھائیں بلکہ آہستہ سے چبا چبا کر کھائیں۔
⭐ کھانے کو اچھی طرح چبا چبا کر کھائیں، تیز کھانے سے تیزابیت اور بدہضمی ہوتی ہے جس سے گیس کا مرض تکلیف کا سبب بن سکتا ہے۔
⭐ ٹھنڈا کھانا کھانے سے پرہیز کریں، اور زیادہ مصالحے والی چیزیں کھانے سے بھی اجتناب برتیں۔
⭐ کوئی نہ کوئی جسمانی ورزش (Exercise) کرنا بھی گیس کے مرض میں بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔
⭐ صبح ناشتے میں اسپغول کا چھلکا استعمال کریں، طریقہ کچھ یوں کہ رات بھر کے لئے ایک کھانے کا چمچ اسپغول کا چھلکا تین چمچ پانی میں بھگو دیں، صبح آدھا کپ دودھ اور ایک کھانے کا چمچ چینی شامل کرکے اچھی طرح مکس کریں اور کھائیں۔ انشاء اللہ گیس نہیں ہوگی۔
⭐ سونف کو توے پر بُھون لیں اور کسی جار میں رکھ لیں، اور روزانہ صبح، دوپہر اور شام کو ایک ایک چمچ کھانے سے گیس نہیں ہوگی۔
⭐ سونف کی چائے پینا بھی گیس کے مرض کے لئے مفید ہے۔
⭐ سبز چائے کا استعمال بھی گیس میں بہت مفید ہے مگر یاد رہے کہ الائچی کا استعمال ضرور کیا جائے۔
⭐ کچی مولیوں کا استعمال بھی گیس کے مسئلے میں بے حد مفید ہے۔
⭐ الائچی کے پاؤڈر کو ایک گلاس پانی کے ساتھ پینے سے گیس کے مرض میں فوری آرام آجاتا ہے۔
⭐ جن خواتین و حضرات کو گیس کا مرض لاحق ہو، انہیں چاہیئے کہ وہ تلی ہوئی اشیاء سے پرہیز کریں۔
⭐ ہلدی کا کھانوں میں استعمال گیس کے مسئلے کو ختم کرتا ہے، کوشش کریں کہ ہلدی کو کھانوں میں زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔
⭐ پودینہ کا استعمال بھی گیس کے مرض میں مفید ہے۔
پانی کا استعمال زیادہ کرنا بھی گیس کے مرض کے لئے مفید ہے۔
⭐ کھانا کھانے کے فوراً بعد لیٹنا انتہائی غلط ہے۔ کوشش کریں کہ اس سے بچا جائے۔
⭐ کاربونیٹڈ ڈرنکس CARBONATED DRINKS معدے کے لئے نقصان دہ ہیں، حتی المقدور ان سے بچا جائے۔
⭐ ادرک کی جڑیں اُبلے ہوئے پانی میں ڈال کر مزید اُبالیں اور پھر اس میں شہد ڈال کر پینے سے گیس کا مرض دور ہوتا ہے۔
⭐ لہسن کا سوپ بھی معدے کے لئے ایک مفید نُسخہ ہے۔
⭐ چائے کے بجائے سبز چائے استعمال کریں۔
⭐ کھانے میں کالی مرچ کا استعمال کریں۔
⭐ رات سونے سے پہلے کھانا کھانے سے پرہیز کریں، کم از کم سونے سے تین گھنٹے پہلے کھانا کھائیں۔
⭐ کھانا کھانے کا ایک ٹائم مقرر کریں اور اُس کی سختی سے پابندی کریں۔
⭐ سگریٹ نوشی اور پان چھالیہ وغیزہ سے اجتناب برتیں۔
⭐ ناشتہ ضرور کریں اور کوشش کریں کہ بھرپور کریں۔
⭐ گھر میں وہ چیزیں نہ رکھیں جو آپ کو کھانے میں موافق نہ آتی ہوں۔
⭐ ذہنی دباؤ سے بچیں اور خوش رہا کریں۔

رنگ برنگی سبزیاں کھائیں اور دماغی صحت کو بہتربنائیں، خاص عمررسیدہ لوگوں کے لیے ۔ تحقیق

حال ہی میں رنگین سبزیوں اور پھلوں کے بارے میں ایک اہم انکشاف ہو اہے کہ ان میں موجود اجزا نہ صرف آنکھوں اور دل کے لیے بہتر ہوتے ہیں بلکہ بوڑھے افراد میں دماغی اور ذہنی صحت کو بھی برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔

سرخ، پیلی اور نارنجی سبزیوں اور پھلوں کی رنگت والی سبزیوں میں موجود ایک قدرتی رنگ ’’کیراٹونوئیڈز‘‘ کی وجہ سے ہوتی ہے جو نہ صرف اینٹی آکسینڈنٹ سے بھرپور ہوتا ہے، بصارت کو اچھا بناتا ہے بلکہ عمررسیدہ افراد کو دماغی اور ذہنی امراض سے بھی بچاتا ہے۔

امریکا میں کی جانے والی نئی تحقیق کے مطابق عمر رسیدہ افراد کو ٹماٹر، نارنجیاں، نارنجی رنگ کی شملہ مرچیاں، گاجریں، انار اور دیگر سبزیاں اور پھل کھلائے جائیں توان کی دماغی و ذہنی صحت، ارتکاز اور ردِعمل کی قوت بڑھتی ہے اور بزرگوں میں یادداشت میں کمی اور فیصلے کی قوت کی کمزوری جیسے امراض کو روکا جاسکتا ہے۔


اس کے علاوہ لیوٹین (ایل) اور زیکسینتھین (زیڈ) نامی کیراٹونوئیڈز بھی بہت مفید ہوتے ہیں جو پالک، مٹر اور گہری سبز رنگت والی سبزیوں میں عام پائے جاتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق 90 سال سے زئد عمر والے بوڑھے افراد میں ایک اور زیڈ کیراٹونوئیڈز ان کی دماغی صلاحیت کو بڑھانے میں مددگار ہوتے ہیں جن میں بہتر یادداشت اور بولنے کی تیز قابلیت شامل ہے لیکن ماہرین اس کی مرکزی وجہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایک اور دلچسپ تجربے میں 65 سے 86 سال تک کے 43 افراد کو ایک دوسرے سے مختلف الفاظ کے جوڑے یاد رکھنے کو کہا گیا اور اس دوران ایم آر آئی کے ذریعے ان کی دماغی کیفیت کو بھی جانچا گیا۔ سروے میں 58 فیصد خواتین شامل تھیں۔ سائنسدانوں نے بزرگ افراد کی آنکھوں کے ریٹینا میں جمع ایل اور زیڈ کیراٹونوئیڈزکی مقدار معلوم کی۔

سائنسدانوں نے انکشاف کیا کہ جن بزرگوں کے جسم میں ایل اور زیڈ کی زائد مقدار تھی انہیں الفاظ کے جوڑوں کو دُہرانے میں کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی جس سے ظاہر ہے کہ یہ کیراٹونوئیڈز دماغی خلیات کے باہمی رابطے مضبوط اور تیز بناتے ہیں اوراس کی تصدیقی ایم آرآئی سے بھی کی گئی ہے۔

بھنڈی کے فوائد، ایسے فائدے جو شاید آپ نے کبھی نہ پڑھے ہوں۔

بھنڈی ہماری روزمرہ غذا میں شامل ہے لیکن صحت کے معاملے میں اس کی اہمیت اکثر نظرانداز کردی جاتی ہے حالانکہ یہ بھی اپنی جگہ ایک صحت بخش سبزی ہے جس کے فوائد کی فہرست بہت لمبی ہے۔
عام سبزی ہونے کے باوجود، بھنڈی میں وٹامن، معدنیات اور دوسرے غذائی اجزاء وافر پائے جاتے ہیں جو ذیابیطس سے لے کر گردے کی بیماری تک میں مفید ہوتے ہیں۔


دمے میں افاقہ:
سنہ 2000 میں کیے گئے ایک مطالعے سے معلوم ہوا کہ بھنڈی کے استعمال سے دمے کا خطرہ کم ہوتا ہے جب کہ یہ دمے کی شدت میں بھی کمی لاتی ہے۔ اس بنیاد پر ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر روزانہ غذا میں صرف ایک کپ (200 گرام) بھنڈی پکا کر استعمال کرلی جائے تو اس سے دمے کے مریضوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ یہ فوائد صرف بڑوں تک محدود نہیں بلکہ جن بچوں کو دمے اور کھانسی کی شکایت ہوتی ہے انہیں بھی روزانہ بھنڈی کے استعمال سے افاقہ ہوتا ہے۔

کولیسٹرول میں کمی:
بھنڈی نظامِ ہاضمہ کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ کولیسٹرول میں بھی کمی لاتی ہے کیونکہ یہ صحت مند فائبر (ریشے) سے بھرپور ہوتی ہے۔ یہ ریشہ ہمارے پیٹ میں موجود پانی میں حل ہوکر دوسری غذاؤں میں شامل مضر صحت کولیسٹرول سے چپک جاتا ہے اور اسے رگوں میں جذب ہونے سے باز رکھتا ہے۔ اس طرح یہ مضر کولیسٹرول کو جسم میں جمع ہونے ہی نہیں دیتا۔ واضح رہے کہ بھنڈی میں کولیسٹرول تو بالکل بھی نہیں ہوتا جب کہ چکنائی کی بہت ہی معمولی مقدار پائی جاتی ہے۔

ذیابیطس پر کنٹرول:
پانی میں حل پذیر ریشوں (فائبرز) کی وجہ سے بھنڈی میں یہ صلاحیت بھی پیدا ہوجاتی ہے کہ یہ خون میں شکر کی مقدار قابو میں رکھ سکتی ہے۔ سنہ 2011 میں کیے گئے مطالعے سے دریافت ہوا کہ بھنڈی استعمال کرنے کے نتیجے میں خون کی شکر کم ہوجاتی ہے اور یہی بات ذیابیطس پر بہتر کنٹرول میں خصوصی اہمیت رکھتی ہے یعنی ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھنڈی بہت مفید ہے۔

بیماریوں سے بہتر تحفظ:
بھنڈی میں وٹامن سی اور اینٹی آکسیڈنٹ کہلانے والے مادّے بھی شامل ہوتے ہیں جو بیماریوں کے خلاف لڑنے والے ہمارے جسم کے قدرتی نظام کو مضبوط بناتے ہیں۔ علاوہ ازیں، وٹامن سی کی بدولت اس نظام کو خون کے سفید خلیات بنانے میں بھی مدد ملتی ہے جو بیماریوں کے خلاف ’’دفاعی نظام کے سپاہی‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔

گردے کی بیماریوں سے تحفظ:
ذیابیطس کے مریضوں کو گردوں کے امراض کا شدید خطرہ بھی رہتا ہے۔ 2005 میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مطالعے سے معلوم ہوا کہ ذیابیطس میں پرہیزی غذا استعمال کرنے والے مریض اگر روزمرہ طور پر بھنڈی کا استعمال بھی شروع کردیں تو اس سے ان کے گردے بہتر حالت میں رہتے ہیں اور بڑی حد تک گردوں کی بیماریوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔

دورانِ حمل بہتر صحت:
وٹامن اے، وٹامن بی (بشمول بی1، بی2 اور بی6) اور وٹامن سی کی وافر مقداروں کے علاوہ بھنڈی میں زنک اور کیلشیم کی بھی معمولی مقداریں موجود ہوتی ہیں جو حاملہ خواتین کے لیے صحت بخش غذا کا درجہ بھی رکھتی ہیں۔ بھنڈی ایک ایسے غذائی سپلیمنٹ کا نام بھی ہے جو ریشے (فائبر) اور فولک ایسڈ سے بھرپور ہوتا ہے، یعنی وہ غذائی اجزاء جو حاملہ خواتین کے لیے انتہائی ضروری قرار دیئے جاتے ہیں۔ دیگر فوائد کے علاوہ بھنڈی سے قبض بھی نہیں ہوتا اور حاملہ خواتین دورانِ حمل مختلف پیچیدگیوں سے بھی محفوظ رہتی ہیں۔

چاند جیسا چہرہ، چمکتی جلد، صندل کے چند آزمودہ نُسخے

صندل ایک خوش بودار پیلے رنگ کی لکڑی کا برادہ ہے، جو جلد کی حفاظت اور دل کشی میں بہت معاون ہے۔ اسے چندن کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ صندل کی خاصیت یہ ہے کہ اس کی خوش بو سے فضا بہت دیر تک معطر رہتی ہے۔ صندل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا ذکر شعروں اور گیتوں میں بھی ملتا ہے۔


خواتین کے استعمال کی بہت ساری آرائشی مصنوعات جیسے فیشل، تیل اور کریم وغیرہ میں شامل کر کے اسے مزید موثر بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں صندل کے ماسک کی کچھ گھریلو ترکیبیں پیش کی جا رہی ہیں، جن کا استعمال نہ صرف جلد کے لیے مفید ہے، بلکہ یہ چہرے کی دل کشی میں اضافے کا باعث بھی بنے گا۔ اگر آپ کے چہرے کی جلد پر کسی قسم کی الرجی ہے تو ماسک لگانے سے پہلے ہتھیلی کی پشت پر لگا کر ماسک کا اثر دیکھ لیں، اگر کوئی مضر اثر نہ ہوتو بہ آسانی استعمال کریں۔

عرق گلاب اور صندل
یہ بہت آسان گھریلو ماسک ہے، ایک پیالے میں دو چمچے صندل کا چورا ڈالیں، اس کے بعد اتنا عرق گلاب ملائیں کہ وہ گاڑھا محلول بن جائے، اس میں کوئی گھٹلی نہیں رہے۔ اب صاف چہرے اور گردن پر یہ ماسک لگائیں اور 20 منٹ بعد ٹھنڈے پانی سے دھو لیں۔ چہرہ گلاب کی طرح کھل اٹھے گا۔

جو اور صندل
ایک بلینڈر میں دو چمچے صندل کا چورا، ایک چمچہ دلیہ، چند گلاب کی پتیاں اورپانی ڈال کر بلینڈ کرلیں۔ اس کا ماسک لگانے سے پہلے دودھ سے چہرہ صاف کریں، اس کے بعد روئی میں عرق گلاب لگا کر چہرے پر لگائیں، جب خشک ہو جائے تو گاڑھا محلول والا ماسک چہرے پر پھیلا کر لگائیں، یہاں تک کہ ماسک خشک ہو جائے۔ اس کے بعد ٹھنڈے پانی سے چہرہ دھو لیں۔ یہ جلد کو صحت مند اور چمک دار بناتا ہے۔

ہلدی اور صندل
ایک شیشے کی پیالی میں دو چمچے صندل کا برادہ ڈالیں، اس کے بعد ایک چمچہ ہلدی ملائیں۔ ان دونوں کو ملانے کے بعد اس میں تین چمچے شہد ملا دیں۔ جب تینوں اجزا یک جان ہو جائیں تو چہرے پر یہ ماسک لگا ئیں اور 20 سے 25 منٹ کے لیے لگا رہنے دیں اور پھر دھو لیں۔

دودھ اور صندل
کچے دودھ میں صندل ملا کر چہرے پر ہلکے ہاتھوں سے مساج کریں اور پھر پندرہ منٹ بعد جب خشک ہو جائے تو منہ دھو لیں۔ یہ ماسک موسم گرما میں جلد کے لیے بے حد مفید ہے۔ خاص طور پر دھوپ سے جھلسے ہوئے چہرے کو صاف کرنے میں خاصا معاون ہے۔

سیب اور صندل
سیب کا چھلکا اتار کر ایک چمچہ گودا نکال لیں اور اس میں ایک چمچہ صندل کا برادہ ملانے کے بعد اسے عرق گلاب سے تر کریں۔ اس کے بعد چہرے پر پھیلا کر لگائیں، 20 منٹ بعد چہرہ دھولیں۔ یہ ماسک مردہ اور بے رونق جلد کے لیے اکسیر ہے۔

ملتانی مٹی اور صندل
ایک پیالی میں ایک چمچہ ملتانی مٹی اور صندل کا چورا لے کر اس میں لیموں کا رس اور عرق گلاب ملا کر محلول بنالیں، اس ماسک کو چہرے پر انگلیوں کی مدد سے لگائیں، جب اچھی طرح سے سوکھ جائے تو منہ دھو لیں۔ یہ ماسک جلد پر بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات کو کم کرتا ہے اور جلد پر پڑنے والی لکیروں اور جھریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

کھیرے اور صندل
دو چمچے کھیرے کے رس میں صندل کا چورا ملا کر گاڑھا ماسک چہرے پر پھیلا کر لگائیں، 20 منٹ بعد دھولیں، یہ ماسک چہرے کی جلد کو تازہ کرتا ہے۔

گاجر، سرد موسم کی ایک مفید ذائقے دار سبزی

گاجر ایک ایسی سبزی ہے، جسے کچا اور پکا دونوں صورتوں میں بہت شوق سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا رس نکال کر بلکہ اس کے اچار کو بھی بہت پسند کیا جاتا ہے۔ گاجر میں نشاستہ، فولاد، پروٹین، گلوکوز اور سب سے بڑھ کر وٹامن اے وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔


کم زور نظر والے افراد کے لیے گاجر کا رس بہترین دوا ہے۔ جلدی بیماریوں میں بھی گاجر کا رس اور کچا گاجر بہترین اور فعال کردار ادا کرتا ہے۔ یہ نہ صرف اعضائے رئیسہ کے لیے بہت اہم ہے، بلکہ جسم کو طاقت دینے میں لاثانی ہے۔ کولیسٹرول کو گھٹاتی ہے، اسی بنا پر دل کے مریضوں کے لیے بے حد مفید ہے۔

گاجر سے کئی اشیا بنائی جاتی ہیں۔ مثلاً گاجر کا حلوہ، گاجر کا اچار، سلاد، گجریلہ، وغیرہ۔ گاجروں سے سارا سال استفادہ کرنے کے لیے اسے اچار کی صورت میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس کا طریقہ کار کچھ یوں ہے۔

ایک پاؤ بند گوبھی،آدھی پیالی تیل، ایک پاؤ گاجر، چار چمچے ہلدی، ایک پاؤ بڑی ہری مرچ، چار چمچے پسی ہوئی لال مرچ،تین چمچے کُٹی ہوئی لال مرچ، تین چمچے پسا ہوا دھنیا، دو چمچے کُٹا ہوا لہسن ادرک، آدھی پیالی سرکہ، دو چمچے پسی ہوئی رائی، نمک (حسب ذائقہ) لیجیے۔ بند گوبھی اور گاجر باریک کاٹ لیں، مرچیں میں درمیان سے پھانکیں ڈال لیں اور ایک بڑے تھال یا پیالے میں ڈال دیں، جس میں آسانی سے سب یک جان کیے جا سکیں، تیل کے علاوہ تمام مسالے، سبزیوں میں ڈال کر خوب اچھی طرح ملا لیں اور پھر اوپر تیل ڈال کر کانچ کے مرتبان میں بھر کر رکھ لیں۔ یہ اچار سال بھر تک استعمال کر سکتی ہیں۔
زیادہ مقدار میں بنائیں، تو کانچ کے برتن میں رکھ کر فریج میں رکھیں، ورنہ خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

گاجر کے اچار کی ایک اور ترکیب کے لیے اجزا کچھ یوں ہیں۔ تین عدد گاجروں کو لمبی باریک پھانکوں کی صورت میں کتر لیں، پھر اس میں پسا ہوا لہسن، آدھا چمچہ ادرک،آدھا چمچہ لال مرچ، آدھا چمچہ پسے ہوئے دھنیے کے علاوہ حسب ضرورت ہلدی اور نمک کے ساتھ ملائیں۔ پھر اس میں ایک چمچہ تیل بھی شامل کر لیں اور دال کڑھی اور پلاؤ وغیرہ کے ساتھ مزے دار اچار نوش کریں۔

گاجر کو بطور مشروب استعمال کرنا چاہیں، تو دو کلو سرخ گاجریں، تین چمچے رائی، ڈیڑھ چمچہ سرخ مرچ، آدھا چمچہ کالا نمک اور حسب ضرورت سفید نمک لیجیے۔
شربت تیار کرنے کے لیے گاجروں کے چار چار ٹکڑے کر لیں۔ رائی باریک پیس کر تمام مسالوں کو ملا لیں، پھر کسی صاف مٹی کے گھڑے یا شیشے کے مرتبان میں چار لیٹر ڈال کر گاجروں کے ٹکڑے اور مسالا جات ڈال کر اچھی طرح ہلالیں، پھر اسے بند کر کے چار دن کے لیے چھوڑ دیں۔ مزے دار شربت تیار ہے۔

بیکنگ سوڈے کا جادُو، فائدے جانیئے۔

ہمارے باورچی خانے میں موجود بیکنگ سوڈا انتہائی معمولی قیمت میں مل جاتا ہے لیکن اس کے فوائد ان گنت ہیں۔ دانتوں کی صفائی سے لے کر کیل مہاسوں کو ٹھیک کرنے کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے، اسے اگر ناخنوں پر لگایا جائے تو آپ کو اس کا شاندار فائدہ حاصل ہوگا۔ اگر آپ کے ناخنوں پر فنگس ہے اور آپ اس کی وجہ سے پریشان ہیں تو تھوڑا سا بیکنگ سوڈا ناخنوں پر لگائیں اور کسی برش سے صاف کریں، آپ دیکھیں گے کہ ناخن چمک جائیں گے۔
آئیے آپ کو بیکنگ سوڈا کے دیگر فوائد سے آگاہ کرتے ہیں۔


* اگر آپ بھاری ورزش کرنے کے بعد تھکاوٹ کا شکا ر ہیں تو ایک گلاس پانی میں ایک چمچ سوڈا ملا کر پینے سے آپ کو کافی سکون ملے گا۔

* اگر آپ کو ہاتھوں اور پاﺅں میں خارش یا سوزش ہے تو تین بڑے چمچ بیکنگ سوڈا، ایک بڑا چمچ نمک، پیپرمنٹ آئل کو پانی میں مکس کریں اور اپنے ہاتھ اور پاﺅں اس میں 20 منٹ تک بھگوئیں۔ آپ دیکھیں گے کہ خارش، بدبو اور سوزش ختم ہوجائے گی۔

* اگر آپ کی سانسوں سے بدبو آتی ہے تو بیکنگ سوڈا کو پانی میں حل کرکے اس پانی سے غرارے کریں۔

* دانتوں کو چمکانے کے لئے بیکنگ سوڈا کو برش پر ڈالیں اور دانتوں پر رگڑیں، دانت موتی کی طرح چمک جائیں گے۔

* کیل مہاسوں کے لئے بیکنگ سوڈا کو پانی میں ملا کر ایک پیسٹ بنائیں اور اسے کیل مہاسوں پر لگائیں، آپ کی جلد صاف ہوجائے گی۔

ایسی 6 گھریلو چیزیں جو کینسر کی وجہ بھی بن سکتی ہیں

ہر انسان فطری طور پر اپنے گھر کو دنیا کی سب سے پیاری اور محفوظ ترین جگہ سمجھتا ہے لیکن اسی گھر میں کینسر (سرطان) کی وجہ بننے والی چیزیں بھی موجود ہوسکتی ہیں۔ گھریلو استعمال کی ان اشیاء میں ایسے مرکبات ہوتے ہیں جن سے بار بار اور زیادہ سامنے ہونے کے نتیجے میں سرطان جیسی خطرناک اور جان لیوا بیماری بھی لاحق ہوسکتی ہے کیونکہ ان میں نائٹروبنزین، فارم ایلڈی ہائیڈ اور میتھائلین کلورائیڈ جیسے خطرناک مادّے شامل ہوتے ہیں۔
یہ مادّے پلاسٹک اور ربر سے بنے عام گھریلو سامان کے علاوہ مصنوعی خوشبوؤں تک میں پوشیدہ ہوسکتے ہیں۔ یہ تحریر ایسی ہی چند گھریلو اشیاء کے بارے میں ہے تاکہ آپ محتاط رہ سکیں۔


خوشبودار موم بتیاں:
مہنگی اور بلند معیار والی موم بتیوں میں (خاص طور پر وہ جنہیں جلانے پر کمرے میں خوشبو پھیل جاتی ہے) شعلہ جلائے رکھنے کے لیے درمیان میں موٹے دھاگے کی جگہ سیسے والی باریک ڈور استعمال کی جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت بازار میں دستیاب 40 فیصد خوشبودار موم بتیوں میں سیسے کی ڈور استعمال کی جاتی ہے۔ اور سیسے کی ڈور والی موم بتی سے فضا میں جتنا سیسہ خارج ہوتا ہے اس سے بچوں کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ شدید طور پر بڑھ جاتا ہے۔ فضا میں سیسے کی آلودگی سے متعلق ماحولیاتی تحفظ کی عالمی تنظیم (ای پی اے) نے جو معیارات مقرر کر رکھے ہیں ان کے مطابق سیسے کی ڈور والی موم بتیوں سے فضا میں خارج ہونے والا سیسہ بچوں کے لیے محفوظ حد سے 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن سیسے کی تباہ کاریاں صرف کینسر تک ہی محدود نہیں کیونکہ اس کی زیادہ مقدار جسم میں پہنچ جانے کا نتیجہ ہارمونوں کے متاثر ہونے، نئی چیزیں سیکھنے میں معذوری اور عادت/ مزاج سے متعلق کئی مسائل کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی اگر آپ کو اپنی اور اپنے بچوں کی صحت عزیز ہے تو خوشبودار موم بتیوں کو پہلی فرصت میں گھر سے نکال باہر کریں اور سوتی ڈور والی موم بتیاں ہی استعمال کریں۔

ایئر فریشنر:
ہوا میں بدبو ختم کرنے اور ماحول خوشگوار بنانے کے لیے ایئر فریشنر کا استعمال بھی ہمارے یہاں گھروں میں عام ہوتا جارہا ہے لیکن ان ہی ایئر فریشنرز میں ایسے طیران پذیر نامیاتی مرکبات (وولاٹائل آرگینک کمپاؤنڈز) ہوتے ہیں جو کینسر کی وجہ بن سکتے ہیں۔ گھروں میں زیادہ استعمال ہونے والے 13 ایئر فریشنرز پر کی گئی ایک تحقیق سے پتا چلا کہ بیشتر ایئر فریشنرز میں تولیدی نظام کو متاثر کرنے اور دمہ پیدا کرنے والے مرکبات موجود ہوتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایئر فریشنرز کی بڑی تعداد میں نہ صرف خطرناک، زہریلے اور کینسر کی وجہ بننے والے مرکبات ہوتے ہیں بلکہ ان کا اندراج ایئر فریشنر کے ڈبے پر موجود اجزاء کی فہرست میں بھی نہیں کیا جاتا۔ یقیناً یہ بات تشویشناک ہے اس لئے بہتر ہے کہ خوشبو کے لیے قدرتی عطر استعمال کیے جائیں جو محفوظ بھی رہتے ہیں۔

آرائشی سامان:
ربر سیمنٹ گوند، مستقل مارکر، ایکرائلک پینٹس اور اس طرح کی دوسری اشیاء جن کا تعلق آرائشی سامان یا ’’آرٹ‘‘ سے ہے وہ الرجی پیدا کرنے اور مختلف جسمانی اعضاء کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کینسر کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔ خاص طور پر بچوں کو ان مصنوعی چیزوں سے بہت خطرہ ہوتا ہے کیونکہ ان کا قدرتی دفاعی نظام اتنا مضبوط نہیں ہوتا کہ ان کے مضر اثرات کا سامنا کرسکے۔

بدبو بھگانے والی مصنوعات:
پسینے سے اٹھنے والی بدبو ختم کرنے اور جسم کو خوشبودار بنانے کے لیے ’’ڈیوڈورینٹ‘‘ کہلانے والی مصنوعات گھروں میں بکثرت استعمال کی جاتی ہیں لیکن صحت کے معاملے میں ان کی شہرت بہت خراب ہے کیونکہ ان میں مختلف الاقسام سرطانوں (کینسرز) کی وجہ بننے والے مرکبات شامل ہوتے ہیں۔ یہ لمبے عرصے تک ہماری جلد پر موجود رہتے ہیں اور ان میں شامل مضر مرکبات نہ صرف جلد پر بلکہ جلد میں جذب ہوکر اندر تک پہنچ جاتے ہیں اور کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔

شیمپو:
بات کچھ عجیب سی لگتی ہے لیکن شمپوؤں میں بھی زہریلے مرکبات شامل ہونے کی خبریں عرصہ دراز سے گردش میں ہیں۔ ان پر ابھی سائنسی مطالعات جاری ہیں لیکن ہمارا مشورہ تو یہی ہے کہ بعد کے پچھتاوے سے بہتر آج کی احتیاط ہے۔

شاور کے پردے:
پلاسٹک سے بنے ہوئے نیم شفاف پردے جنہیں نہاتے دوران کھینچ دیا جاتا ہے، ان میں بھی ایئر فریشنر کی طرح طیران پذیر نامیاتی مرکبات (وی او سیز) شامل ہوتے ہیں۔ یہ صرف غسل خانے ہی میں نہیں بلکہ ارد گرد ماحول میں بھی انتہائی معمولی مقداروں میں خارج ہوکر سرطان سمیت کئی بیماریوں کی وجہ بن سکتے ہیں۔

سر درد سے متعلق کچھ ایسے اسباب جن سے شاید آپ ناواقف ہوں

سر میں درد اپنے آپ میں کوئی بیماری تو نہیں لیکن بعض اوقات شدید تکلیف کا باعث بنتا ہے اور کئی وجوہ سے کسی بھی موسم میں ہوسکتا ہے ان میں سے کچھ اسباب سے ہم واقف ہوتے ہیں جب کہ بیشتر ہمارے علم میں نہیں ہوتے۔


پانی کی کمی:
اگر ہمارے جسم میں پانی کی کمی یعنی ’’ڈی ہائیڈریشن‘‘ ہوجائے تو اس سے بھی سر میں درد ہوسکتا ہے کیونکہ پانی ہمارے جسم کی اہم ترین ضروریات میں سے ایک ہے جس کی کمی ہماری صحت کے لیے کئی مسائل پیدا کردیتی ہے۔ بہت سے لوگ اس طرف توجہ نہیں دیتے اور صرف اسی وقت پانی پیتے ہیں جب انہیں پیاس لگتی ہے جو ایک غلط رویہ ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے جسم کو روزانہ تقریباً 2 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر آپ پابندی سے ورزش یا روزمرہ جسمانی مشقت کرتے ہیں تو آپ کو اس سے بھی زیادہ مقدار میں ہر روز پانی پینا چاہیے۔

کیفین میں کمی:
چائے اور کافی آج ہمارے روزمرہ مشروبات کا حصہ بن چکی ہیں اور لوگوں کی اکثریت ان کی عادی بھی ہے۔ چائے اور کافی میں ’’کیفین‘‘ شامل ہوتی ہے جو جسم میں چستی اور پھرتی پیدا کرتی ہے۔ وہ لوگ جو روزانہ چائے یا کافی پینے کے عادی ہوتے ہیں، اگر وہ ان کی مقدار میں کمی کردیں یا انہیں بالکل ہی ترک کردیں تو انہیں بھی (کیفین میں کمی وجہ سے) سر میں درد کی شکایت ہوسکتی ہے۔

دھوپ کی زیادتی:
سردیوں کی دھوپ اچھی لگتی ہے جس سے ہم خود کو ہشاش بشاش بھی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن گرم اور معتدل موسم میں زیادہ دیر تک دھوپ میں رہنے سے جسم میں پانی کی کمی کے علاوہ سورج کی گرمی سے بھی سر میں درد ہوسکتا ہے۔

ہوا کے دباؤ میں تبدیلی:
موسم اور ماحول بدلنے کے ساتھ بعض مرتبہ ہوا کے دباؤ میں بھی تبدیلی آجاتی ہے جس کا نتیجہ سر میں درد کے طور پر ظاہر ہوسکتا ہے۔ اگرچہ یہ شکایت بہت کم لوگوں کو کبھی کبھار ہوتی ہے لیکن دردِ سر کی ایک وجہ بہرحال یہ بھی ہے۔

نشست و برخاست کا غلط انداز:
کام کے دوران اکثر لوگ اس طرح سے بیٹھتے ہیں کہ ان کی گردن اور کمر پر زیادہ زور پڑتا ہے جس کے زیادہ دیر تک برقرار رہنے کی صورت میں ہڈیوں اور پٹھوں میں اینٹھن شروع ہوجاتی ہے۔ لیکن نشست و برخاست کا یہی انداز (پوسچر) درست نہ ہونے پر سر میں بھی درد ہوجاتا ہے کیونکہ ریڑھ کی ہڈی سے اٹھنے والا درد کا احساس دماغ تک پہنچتا ہے اور سر میں درد کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

گھریلو اور کاروباری تناؤ:
گھریلو اور کاروباری مسائل کی وجہ سے ہمارے اعصاب دیر تک تناؤ کا شکار بھی رہ سکتے ہیں اور یہی تناؤ سر میں درد کی شدید لہر پیدا کرسکتا ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ کسی بھی طرح کے اعصابی تناؤ سے خود کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھیں کیونکہ اگر اس طرف توجہ نہ دی جائے تو یہی اعصابی تناؤ دردِ سر سے آگے بڑھ کر بہت سی بیماریوں کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

دواؤں کے ضمنی اثرات:
شاید ہی کوئی دوا ایسی ہو جس کے ضمنی اثرات نہ ہوں۔ البتہ جب ہم کوئی دوا پہلی بار کھاتے ہیں تو ہمارا جسم اس کا عادی ہونے سے پہلے کچھ نامانوسیت کا مظاہرہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں دردِ سر ہوسکتا ہے۔ تاہم اگر کوئی دوا کھانے کے بعد خاصی دیر تک سر میں درد رہے تو ڈاکٹر کو دکھانا ضروری ہے۔

خون میں شوگر کی کمی:
شکر ہمارے جسم میں توانائی کا اہم ترین ذریعہ بھی ہے جو صرف مٹھاس والی غذاؤں ہی میں نہیں بلکہ نمکین کھانوں تک میں موجود ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر خون میں شکر کم ہوجائے تو کمزوری کے علاوہ سر میں درد کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں فوری طور پر کچھ کھا لینا چاہیے ورنہ یہ کیفیت بڑھ کر اذیت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں میں بھی بعض اوقات انسولین لینے کے بعد وقتی طور پر خون میں شوگر کم ہوجاتی ہے جس سے یہی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔

ہارمون کے توازن میں خرابی:
مخصوص دنوں اور بلوغت کے علاوہ عمر رسیدگی کے دوران بھی خواتین میں ہارمون کا توازن بگڑ جاتا ہے جس کے نتیجے میں انہیں موڈ کی خرابی سے لے کر سر میں شدید درد جیسی شکایات ہوسکتی ہے۔ اس موقعے پر بہتر ہے کہ کسی اچھی لیڈی ڈاکٹر کو دکھالیا جائے۔

غذائی الرجی:
بعض لوگوں کو کسی خاص قسم کی غذا سے الرجی ہوتی ہے مثلاً مرغی، انڈا، مچھلی اور دودھ وغیرہ سے؛ اور اسی الرجی کے باعث جہاں انہیں جلد پر خارش اور بیماری لاحق ہوسکتی ہے وہیں ان کے سر میں بھی درد کی شدید ٹیسیں پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ صورتِ حال بھی فوری طور پر ڈاکٹری معائنے کا تقاضا کرتی ہے۔

تیزی سے اٹھنا:
بستر یا کرسی چھوڑ کر تیزی سے کھڑے ہونے کا نتیجہ بھی دردِ سر اور تیز چکر کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے سر میں خون کا بہاؤ چند لمحوں کے لیے متاثر ہوجاتا ہے۔ البتہ یہ کیفیت کچھ دیر سر کی طرف خون کا بہاؤ نارمل ہوتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔

ایسے 5 کام جو کوشش کی جائے تو نیند کے دوران بھی سیکھے جاسکتے ہیں

نفسیات کی رو سے انسانی دماغ نیند کے دوران بھی اہم کام سیکھتا رہتا ہے جس پر تحقیق کے بعد ماہرین کا خیال ہے کہ یہ نئی زبان سیکھنے سے لے کر تمباکو نوشی جیسی بری عادات کو چھوڑنے میں بھی مددگار ہوتا ہے۔


نئی زبانیں سیکھنا:
2014 میں جرمنی میں کی گئی تحقیق میں جب طالب علموں کو ولندیزی (ڈچ) الفاظ کو دوبارہ ان کی نیند میں سنایا تو وہ بہتر طور پر یاد رہے اور انہیں دُہرانے میں بھی آسانی ہوئی۔ تحقیق کرنے والے ماہر کا خیال ہے کہ کوئی بھی اسے اپنا سکتا ہے۔ انہوں نے 60 طالب علموں کو رات 10 بجے ڈچ اورجرمن زبانوں کے الفاظ کے جوڑے یاد کرنے کو کہا اس کے بعد سونے والے آدھے طالب علموں کو نیند کےدوران وہی الفاظ دوبارہ سنائے گئے، صبح جب ٹیسٹ لیے گئے تو نیند میں الفاظ سننے والے طالب علموں نے الفاظ کے جوڑوں کو دوسروں کے مقابلے میں اچھی طرح دُہرایا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ نیند کے دوران ہمارا دماغ ازخود رات کو پڑھی ہوئی معلومات پر توجہ دیتا ہے۔

آلاتِ موسیقی پر کمال حاصل کیجئے:
کسی نئے آلہ موسیقی کو سیکھنا بسا اوقات مہینوں اور سالوں کی محنت چاہتا ہے لیکن نیند میں بھی اس پر مہارت حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے لیے رضاکاروں کوسونے سے قبل اور نیند میں وہ گانا سنایا گیا جسے وہ سیکھ رہے تھے جب کہ دوسرے گروہ کو نیند میں کچھ بھی نہیں سنایا گیا۔ اسی طرح نئے آلاتِ موسیقی سیکھنے والے افراد کو جب نیند میں اس کی دھن سنائی گئی تو انہوں نے اگلے دن وہی دھن یا لے بجانے میں کم غلطیاں کیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ گانا ہو، دھن ہو یا نیا آلہ موسیقی ہو، جب اسے سونے والے کو سنایا جائے تو نیند میں بھی ذہن اسے بہت اچھی طرح سیکھتا ہے۔

نئی معلومات سیکھنے میں معاون:
2012 میں کیے گئے تجربے میں نیند کے دوران نئے حقائق اور معلومات جاننے کے بارے میں غور کیا گیا تھا۔ شرکا کو نیند کے دوران ایک ٹون (موسیقی پر مبنی آواز) سنائی گئی اور اس کے بعد کوئی خوشبو یا بدبو سونگھائی گئی۔ اس کے بعد ایک اور ٹون سنائی گئی اور ایک اور بدبو سونگھائی گئی۔ ماہرین نے غور کیا کہ سونے والوں نے ناگوار بو پر کم اور خوشبو پر گہرا سانس لیا تھا۔ کچھ دیر بعد بو کو ہٹا کر ان سے وابستہ ٹون سنائی گئی تو شرکا نے خوشگوار بو کے ساتھ والی دھن پر گہرا اور ناگوار بو سے وابستہ ٹون پر ہلکا سانس لیا جب کہ انہیں کوئی بو سونگھائی ہی نہیں گئی تھی۔
اسی طرح جاگنے پر دوبارہ شرکا کو وہی دو ٹیون سنائی گئیں لیکن انہوں نے لاشعوری طور پر گہرے اور ہلکے سانس لیے جو اس ٹون سے وابستہ تھے۔ اس سے ثابت ہوا ہے کہ ہم نیند میں نئی معلومات اور رویے سیکھتے رہتے ہیں۔

تمباکو نوشی ترک کرنے میں مددگار:
وائزمان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اسرائیل کے ماہرین نے کہا ہے کہ سگریٹ اور دیگر بو کو استعمال کرتے ہوئے اس کے عادی افراد کو نیند میں سگریٹ چھوڑنے کی تربیت دی جاسکتی ہے۔ نیند کے دوران سگریٹ پینے والے افراد کو سگریٹ اور ایک دوسری بو سونگھائی گئی مثلاً خراب انڈے کی بدبو۔ اسی طرح اگلی رات بھی یہ سلسلہ جاری رکھا گیا۔ اگرچہ صبح لوگوں کو بو تو یاد نہیں رہی لیکن لاشعوری طور پر سگریٹ کی بو کےساتھ انہیں بہت ناگوار بدبو سونگھائی گئی تھی اور اگلے ہفتے انہوں نے 30 فیصد کم سگریٹ استعمال کی۔ جنہیں جاگتے ہوئے وہی بو سونگھائی گئی ان کی سگریٹ نوشی کم نہیں ہوئی۔ تاہم اس میں شامل افراد کی 66 فیصد تعداد سگریٹ چھوڑنے کی خواہشمند ضرور تھی۔

نیند میں چہرے اور نام یاد کرنے کی تربیت:
کئی بار آپ کو سامنے والے شخص کا نام ہزار کوشش کے باوجود یاد نہیں آتا لیکن اچھی نیند آپ کو لوگوں کے نام اور چہرے یاد کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ بوسٹن میں برگھم اینڈ وومین اسپتال نے 14 افراد پر چند تجربات کیے تو معلوم ہوا کہ نیند میں کئی طرح کی یادداشتیں بہتر ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں شرکا کو 20 افراد کی تصاوہر اور ان سے وابستہ نام بتائے اور ان میں سے کچھ کو کم نیند اور کچھ کو اچھی نیند دی۔ جو لوگ سکون سے پوری نیند سوئے تھے انہوں نے تصاویر دیکھ کر افراد کے نام اچھی طرح یاد رکھے۔